Shamim Abbas

شمیم عباس

ممتاز ما بعد جدید شاعروں میں نمایاں

Prominent post-modern poet from Mumbai having an unconventional style.

شمیم عباس کی غزل

    اوٹ پٹانگ الم گلم جانے کیا کیا ہے

    اوٹ پٹانگ الم گلم جانے کیا کیا ہے اب جس کے جو جی آتا ہے بک دیتا ہے چھینا جھپٹی نوچ کھسوٹ اور دھینگا مستی عشق ہے عشق میں یہ سب تو چلتا رہتا ہے کس نے ایسے پاؤں پسارے ذہن و دل میں جال اب لفظوں کا کافی چھوٹا پڑتا ہے ڈھکے چھپے کا قائل نہ تو میں نہ وہ ہم نے اک دوجے پر خود کو کھول دیا ...

    مزید پڑھیے

    کبھی بھنور تھی جو اک یاد اب سنامی ہے

    کبھی بھنور تھی جو اک یاد اب سنامی ہے مگر یہ کیا کہ مجھے اب بھی تشنہ کامی ہے میں اس پہ جان چھڑکتا ہوں با خدا پھر بھی کہیں ہے کچھ مرے بھیتر جو انتقامی ہے مگر جو وہ ہے وہی ہے بھلا کہاں کوئی اور ہزار عیب سہی مانا لاکھ خامی ہے جو جی میں آیا وہی من و عن ہے کاغذ پر نہ سوچا سمجھا سا کچھ ...

    مزید پڑھیے

    آ ترے سنگ ذرا پینگ بڑھائی جائے

    آ ترے سنگ ذرا پینگ بڑھائی جائے زندگی بیٹھ تجھے چائے پلائی جائے یار بس اتنا ہی تو چاہتے ہیں ہم تجھ سے یاری کی جائے تو پھر یاری نبھائی جائے جیسی ہے جتنی ہے اوقات سے بڑھ کر ہے مجھے کیوں ضرورت سے سوا ناک بڑھائی جائے جب بھی میں کرتا کہہ لیتے ہو اپنے من کی کبھی میری بھی سنی جائے ...

    مزید پڑھیے

    نرالا عجب نک چڑھا آدمی ہوں

    نرالا عجب نک چڑھا آدمی ہوں جو تک کی کہو بے تکا آدمی ہوں بڑے آدمی تو بڑے چین سے ہیں مصیبت مری میں کھرا آدمی ہوں سبھی ماشاء اللہ سبحان اللہ ہو لاحول مجھ پر میں کیا آدمی ہوں یہ بچنا بدکنا چھٹکنا مجھی سے مری جان میں تو ترا آدمی ہوں اگر سچ ہے سچائی ہوتی ہے عریاں میں عریاں برہنہ ...

    مزید پڑھیے

    شاکی بدظن آزردہ ہیں مجھ سے میرے بھائی یار

    شاکی بدظن آزردہ ہیں مجھ سے میرے بھائی یار جانے کس جا بھول آیا ہوں رکھ کر میں گویائی یار خاموشی کے صحرا چٹکی میں آوازوں کے جنگل کتنی بستی اجڑی ہم سے کتنی ہم نے بسائی یار دیکھو نا امیدی کو ایسے ٹھینگا دکھلاتے ہیں اکثر اپنے گھر کی کنڈی خود ہم نے کھٹکائی یار تنہائی میں اب بھی کوئی ...

    مزید پڑھیے

    بس ایک بار فقط ایک بار کم سے کم

    بس ایک بار فقط ایک بار کم سے کم سوا مرا ہو ترا اختیار کم سے کم ہر ایک رنگ تجھے ڈھانپ دوں گا سر تا پا تری ہر ایک کا بدلہ ہزار کم سے کم نہ ساتھ ساتھ سہی اتنی دور بھی تو نہ جا اجاڑ مت مرے قرب و جوار کم سے کم ہے اتفاق کہ انسان نکلے دونوں ہی حضور والا بہت خاکسار کم سے کم یوں اپنی ساکھ ...

    مزید پڑھیے

    اہم آنکھیں ہیں یا منظر کھلے تو

    اہم آنکھیں ہیں یا منظر کھلے تو ابھی ہیں بند کتنے در کھلے تو تو پھر کیا حال ہو بس کچھ نہ پوچھو جو بھیتر ہے وہی باہر کھلے تو خیال و لفظ ہیں دست و گریباں ہے کم تر کون ہے برتر کھلے تو سب اپنی کرنی میرے متھے منڈھ دی مصر تھا خیر خود کہ شر کھلے تو دکھائی دے گا کچھ کا کچھ سبھی کچھ مگر ...

    مزید پڑھیے

    اسے نہ ملنے کی سوچا ہے یوں سزا دیں گے

    اسے نہ ملنے کی سوچا ہے یوں سزا دیں گے ہر ایک جسم پہ چہرا وہی لگا دیں گے ہمارے شہر میں شکلیں ہیں بے شمار مگر ترے ہی نام سے ہر ایک کو صدا دیں گے ہم آفتاب کو ٹھنڈا نہ کر سکے اے زمیں اب اپنے سائے کی چادر تجھے اوڑھا دیں گے بھلائے بیٹھے ہیں جس کو ہم ایک مدت سے گر اس نے پوچھ لیا تو جواب ...

    مزید پڑھیے

    اکا دکا شاذ و نادر باقی ہیں

    اکا دکا شاذ و نادر باقی ہیں اپنی آنکھیں جن چہروں کی عادی ہیں ہم بولائے ان کو ڈھونڈا کرتے ہیں سارے شہر کی گلیاں ہم پر ہنستی ہیں جب تک بہلا پاؤ خود کو بہلا لو آخر آخر سارے کھلونے مٹی ہیں کہنے کو ہر ایک سے کہہ سن لیتے ہیں صرف دکھاوا ہے یہ باتیں فرضی ہیں لطف سوا تھا تجھ سے باتیں ...

    مزید پڑھیے

    عمر گزر جاتی ہے قصے رہ جاتے ہیں

    عمر گزر جاتی ہے قصے رہ جاتے ہیں پچھلی کے رت بچھڑے ساتھی یاد آتے ہیں لوگوں نے بتلایا ہے ہم اب اکثر باتیں کرتے کرتے کہیں کھو جاتے ہیں کوئی ایسے وقت میں ہم سے بچھڑا ہے شام ڈھلے جب پنچھی گھر لوٹ آتے ہیں اپنی ہی آواز سنائی دیتی ہے ورنہ تو سناٹے ہی سناٹے ہیں دل کا ایک ٹھکانا ہے پر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3