گریز پا
دھیرے دھیرے گر رہی تھیں نخل شب سے چاندنی کی پتیاں بہتے بہتے ابر کا ٹکڑا کہیں سے آ گیا تھا درمیاں ملتے ملتے رہ گئی تھیں مخملیں سبزہ پہ دو پرچھائیاں جس طرح سپنے کے جھولے سے کوئی اندھے کنویں میں جا گرے ناگہاں کجلا گئے تھے شرمگیں آنکھوں کے نورانی دیے جس طرح شور جرس سے کوئی واماندہ ...