Shakeb Jalali

شکیب جلالی

معروف پاکستانی شاعر، کم عمری میں خود کشی کی

Famous poet from Pakistan. Committed suicide at an early age.

شکیب جلالی کی نظم

    جہت کی تلاش

    یہاں درخت کے اوپر اگا ہوا ہے درخت زمین تنگ ہے (جیسے کبھی فراخ نہ تھی) ہوا کا کال پڑا ہے، نمی بھی عام نہیں سمندروں کو بلو کر فضاؤں کو متھ کر جنم دیے ہیں اگر چند ابر کے ٹکڑے جھپٹ لیا ہے انہیں یوں دراز شاخوں نے کہ نیم جاں تنے کو ذرا خبر نہ ہوئی جڑیں بھی خاک تلے ایک ہی لگن میں رواں نہ ...

    مزید پڑھیے

    انفرادیت پرست

    ایک انساں کی حقیقت کیا ہے زندگی سے اسے نسبت کیا ہے آندھی اٹھے تو اڑا لے جائے موج بپھرے تو بہا لے جائے ایک انساں کی حقیقت کیا ہے ڈگمگائے تو سہارا نہ ملے سامنے ہو پہ کنارا نہ ملے ایک انساں کی حقیقت کیا ہے کند تلوار قلم کر ڈالے سرد شعلہ ہی بھسم کر ڈالے زندگی سے اسے نسبت کیا ہے ایک ...

    مزید پڑھیے

    کالا پتھر

    میرا چہرہ آئینہ ہے آئینے پر داغ جو ہوتے لہو کی برکھا سے میں دھوتا اپنے اندر جھانک کے دیکھو دل کے پتھر میں کالک کی کتنی پرتیں جمی ہوئی ہیں جن سے ہر نتھرا ستھرا منظر کجلا سا گیا دریا سوکھ گئے ہیں شرم کے مارے کوئلے پر سے کالک کون اتارے!!

    مزید پڑھیے

    لرزتا دیپ

    دور شب کا سرد ہات آسماں کے خیمۂ زنگار کی آخری قندیل گل کرنے بڑھا اور کومل چاندنی ایک در بستہ گھروندے سے پرے مضمحل پیڑوں پہ گر کر بجھ گئی بے نشاں سائے کی دھیمی چاپ پر اونگتے رستے کے ہر ذرے نے پل بھر کے لیے اپنی پلکوں کی بجھی درزوں سے جھانکا اور آنکھیں موند لیں اس سمے طاق شکستہ ...

    مزید پڑھیے

    مبارک وہ ساعت

    میں بھٹکا ہوا اک مسافر رہ و رسم منزل سے ناآشنائی پہ نازاں تعاقب میں اپنی ہی پرچھائیوں کے رواں تھا میرے جسم کا بوجھ دھرتی سنبھالے ہوئے تھی مگر اس کی رعنائیوں سے مجھے کوئی دل بستگی ہی نہیں تھی کبھی راہ چلتے ہوئے خاک کی روح پرور کشش میں نے محسوس کی ہی نہیں تھی میں آنکھوں سے بینا تھا ...

    مزید پڑھیے

    رات کے پچھلے پہر

    شام ہی سے تھی فضا میں کسی جلتے ہوئے کپڑے کی بساند اور ہوا چلتی تھی جیسے اس کے زخمی ہوں قدم دیدۂ مہر نے ان جانے خطر سے مڑ کر جاتے جاتے بڑی حسرت سے کئی بار زمیں کو دیکھا لیکن اس سبز لکیر اس درختوں کی ہری باڑ کے پار کچھ نہ پایا کوئی شعلہ نہ شرار اور پھر رات کے تنور سے ابلا پانی تیرگیوں ...

    مزید پڑھیے

    پاداش

    کبھی اس سبک رو ندی کے کنارے گئے ہی نہیں ہو تمہیں کیا خبر ہے وہاں ان گنت کھردرے پتھروں کو سجل پانیوں نے ملائم رسیلے، مدھر گیت گا کر امٹ چکنی گولائیوں کو ادا سونپ دی ہے وہ پتھر نہیں تھا جسے تم نے بے ڈول، ان گھڑ سمجھ کر پرانی چٹانوں سے ٹکرا کے توڑا اب اس کے سلگتے تراشے اگر پاؤں میں ...

    مزید پڑھیے

    ساتھی

    میں اس کو پانا بھی چاہوں تو یہ میرے لیے نا ممکن ہے وہ آگے آگے تیز خرام میں اس کے پیچھے پیچھے افتاں خیزاں آوازیں دیتا شور مچاتا کب سے رواں ہوں برگ خزاں ہوں جب میں اکتا کر رک جاؤں گا وہ بھی پل بھر کو ٹھہر کر مجھ سے آنکھیں چار کرے گا پھر اپنی چاہت کا اقرار کرے گا پھر میں منہ توڑ کے تیزی ...

    مزید پڑھیے

    اندمال

    شام کی سیڑھیاں کتنی کرنوں کا مقتل بنیں باد مسموم نے توڑ کر کتنے پتے سپرد خزاں کر دیے بہہ کے مشکیزۂ ابر سے کتنی بوندیں زمیں کی غذا بن گئیں غیرممکن تھا ان کا شمار تھک گئیں گننے والے ہر اک ہاتھ کی انگلیاں ان گنت کہہ کے آگے بڑھا وقت کا کارواں ان گنت تھے مرے زخم دل ٹوٹی کرنوں، بکھرتے ...

    مزید پڑھیے

    یاد

    رات اک لڑکھڑاتے جھونکے سے ناگہاں سنگ سرخ کی سل پر آئنہ گر کے پاش پاش ہوا اور ننھی نکیلی کرچوں کی ایک بوچھاڑ دل کو چیر گئی

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2