Shakeb Ayaz

شکیب ایاز

شکیب ایاز کی غزل

    جھونکا ہوا کا ادھ کھلی کھڑکی تک آ نہ جائے

    جھونکا ہوا کا ادھ کھلی کھڑکی تک آ نہ جائے جینے کا اس کو کوئی سلیقہ سکھا نہ جائے کنکر سے چکناچور ہے سیال آئنہ قرطاس موج کا کوئی لکھا مٹا نہ جائے عریاں کھڑی ہوئی یہ سیہ سی پہاڑ شب سورج کی انفعالی نظر کو جھکا نہ جائے جب سے ہوئی ہے میری زباں زہر آشنا امرت کا ایک گھونٹ بھی مجھ سے پیا ...

    مزید پڑھیے

    کسی نے ایسا طلسم یقیں نہیں دیکھا

    کسی نے ایسا طلسم یقیں نہیں دیکھا کہ اس کے بعد اسے پھر کہیں نہیں دیکھا یہ کس نے دشت کی تصویر آنکھ میں رکھ دی سکوت ایسا برہنہ نشیں نہیں دیکھا سرائے شب میں جو ٹھہرے تھے کیا ہوئے آخر غبار راہ دم واپسیں نہیں دیکھا ستارے ٹوٹ کے گرتے تھے جانماز پہ رات کہ ایسا عرش نے صاحب جبیں نہیں ...

    مزید پڑھیے

    بے آب و بے گیاہ ہوا اس کو چھوڑ کر

    بے آب و بے گیاہ ہوا اس کو چھوڑ کر کیسے بجھاؤں پیاس میں پتھر نچوڑ کر وہ بھی عجیب شام تھی جن ساعتوں کے بیچ میں بھی بکھر بکھر گیا شیشے کو توڑ کر میں گھر گیا ہوں رنگ سپید و سیاہ میں وہ خوش ہے زعفران کی اک شاخ توڑ کر کچھ اور تیز ہو گئی اندر کی روشنی اک پل بھی مل سکا نہ سکوں آنکھ پھوڑ ...

    مزید پڑھیے

    خونیں گلاب سبز صنوبر ہے سامنے

    خونیں گلاب سبز صنوبر ہے سامنے آنکھوں میں قید کرنے کا منظر ہے سامنے فوج سیاہ چاروں طرف محو گشت ہے خنجر برہنہ رات کا لشکر ہے سامنے وہ سانس لے رہا ہے مگر زندگی کہاں شیشے میں بند لاکھ کا پیکر ہے سامنے اترا کے چل شعور کی ٹھوکر بھی کھا کے دیکھ بے لمس آگہی کا وہ پتھر ہے سامنے فطرت پہ ...

    مزید پڑھیے

    تماشا ہائے سحر کن‌ فکاں ہم دیکھ آئے ہیں

    تماشا ہائے سحر کن‌ فکاں ہم دیکھ آئے ہیں تری شاہی کے سب راز نہاں ہم دیکھ آئے ہیں خزاں آوارہ پتے کیوں ہوا میں رقص کرتے ہیں یہ ہم سے پوچھ لو سب این و آں ہم دیکھ آئے ہیں تری تصویر میں یہ رنگ حیرت خون ہے اپنا لکھا کیا ہے سر اوراق جاں ہم دیکھ آئے ہیں لگی تھی آگ کس گھر میں نہیں معلوم ہے ...

    مزید پڑھیے

    نئی رات اک مرتب ہو رہی ہے

    نئی رات اک مرتب ہو رہی ہے گھنی برسات جگنو بو رہی ہے نئے جاڑے کی کچی دھوپ تنہا مرے گھر میں پسر کر سو رہی ہے کہیں سیلاب تو آیا نہیں ہے کنارے پر ٹٹہری رو رہی ہے

    مزید پڑھیے

    ہوس وقت کا اندازہ لگایا جائے

    ہوس وقت کا اندازہ لگایا جائے رات پاگل ہوئی دروازہ لگایا جائے آشنا شہر کی آنکھوں میں نیا شخص لگوں ایسا چہرے پہ کوئی غازہ لگایا جائے بیتے موسم میں جو پھل آئے کسیلے نکلے اب کوئی پیڑ یہاں تازہ لگایا جائے بھاگتے دوڑتے شہروں کو پنہا کر زنجیر خلوت جاں کا بھی اندازہ لگایا جائے میں ...

    مزید پڑھیے

    لگا لیا تھا گلے اس نے با وفا کہہ کر

    لگا لیا تھا گلے اس نے با وفا کہہ کر ہمیں نے ٹال دیا حرف آشنا کہہ کر کف طلب پہ کبھی تو مرے حضور لکھو حنا کے نقش کو تحریر خوں بہا کہہ کر کچھ ایسی شکل مجھے روبرو دکھائی دی نظر پلٹ گئی آئینۂ ریا کہہ کر اڑا کے لے گئی موج صبا نہ جانے کہاں تمہارے جسم کی خوشبو کو آشنا کہہ کر فصیل وقت سے ...

    مزید پڑھیے

    گھر جو لوٹے تو ملے غیر کے سامانوں میں

    گھر جو لوٹے تو ملے غیر کے سامانوں میں پھول کچھ چھوڑ کے آئے تھے جو گل دانوں میں وہ بھی ہجرت کے تکلف سے بری ہو نہ سکے آئے کچھ لوگ جو کعبے سے صنم خانوں میں ان کے چہروں کو نگاہوں سے قطع مت کیجئے جن کی پہچان رہی آئنہ سامانوں میں میری آمد پہ ہر اک شخص کو حیرانی ہے وہ مجھے ڈھونڈنے نکلے ...

    مزید پڑھیے