کسی نے ایسا طلسم یقیں نہیں دیکھا
کسی نے ایسا طلسم یقیں نہیں دیکھا
کہ اس کے بعد اسے پھر کہیں نہیں دیکھا
یہ کس نے دشت کی تصویر آنکھ میں رکھ دی
سکوت ایسا برہنہ نشیں نہیں دیکھا
سرائے شب میں جو ٹھہرے تھے کیا ہوئے آخر
غبار راہ دم واپسیں نہیں دیکھا
ستارے ٹوٹ کے گرتے تھے جانماز پہ رات
کہ ایسا عرش نے صاحب جبیں نہیں دیکھا
بس اتنا یاد ہے مقتل سے کوئی گزرا ہے
لہو سے تر تھی مری آستیں نہیں دیکھا