تماشا ہائے سحر کن‌ فکاں ہم دیکھ آئے ہیں

تماشا ہائے سحر کن‌ فکاں ہم دیکھ آئے ہیں
تری شاہی کے سب راز نہاں ہم دیکھ آئے ہیں


خزاں آوارہ پتے کیوں ہوا میں رقص کرتے ہیں
یہ ہم سے پوچھ لو سب این و آں ہم دیکھ آئے ہیں


تری تصویر میں یہ رنگ حیرت خون ہے اپنا
لکھا کیا ہے سر اوراق جاں ہم دیکھ آئے ہیں


لگی تھی آگ کس گھر میں نہیں معلوم ہے لیکن
اٹھا تھا آنکھ سے کس کی دھواں ہم دیکھ آئے ہیں


جو تیرے حرف سن لیں وہ کسی کی پھر نہیں سنتے
ترے لب کا وہ اعجاز بیاں ہم دیکھ آئے ہیں