گھر جو لوٹے تو ملے غیر کے سامانوں میں
گھر جو لوٹے تو ملے غیر کے سامانوں میں
پھول کچھ چھوڑ کے آئے تھے جو گل دانوں میں
وہ بھی ہجرت کے تکلف سے بری ہو نہ سکے
آئے کچھ لوگ جو کعبے سے صنم خانوں میں
ان کے چہروں کو نگاہوں سے قطع مت کیجئے
جن کی پہچان رہی آئنہ سامانوں میں
میری آمد پہ ہر اک شخص کو حیرانی ہے
وہ مجھے ڈھونڈنے نکلے تھے بیابانوں میں
ہم بھی تقسیم ہوئے آپ بھی تقسیم ہوئے
دونوں منہ ڈھانپ کے روتے ہیں گریبانوں میں