نغمۂ جاں

پھر کوئی نغمۂ جاں چھیڑ کہ شب باقی ہے
ان سنا گیت کوئی رقص گہہ انجم میں
الجھے الجھے ہوئے بالوں سے الجھتا ہوا گیت
مہکی مہکی ہوئی سانسوں میں سلگتا ہوا گیت


پھر سجایا ہے ہتھیلی پہ ترے نام کا دیپ
اور ہواؤں سے الجھتے ہیں سنبھل جاتے ہیں
سلسلے خواب کے بد مست ہوا کے ساتھی
دل میں اک جوت جلاتے ہیں بجھا جاتے ہیں


میرے تکیے پہ سجی ہے کوئی بے کل خواہش
سوچتی ہوں کہ اسے نیند کی وادی لے جاؤں
اپنی سہمی ہوئی باہوں کا بنا کر گھیرا
سنگ اپنے ہی رکھوں دور نہ ہونے پاؤں


ان سنا گیت کوئی رقص گہہ انجم میں
پھر کوئی نغمۂ جاں چھیڑ کہ شب باقی ہے