حرص و ہوس کے آگے نہ کچھ بھی دکھائی دے

حرص و ہوس کے آگے نہ کچھ بھی دکھائی دے
انسان اپنے قد سے بھی چھوٹا دکھائی دے


اپنے دلوں کا کھوٹ نظر آتا نہیں ہے
سکہ پرایا ہو تو وہ کھوٹا دکھائی دے


کوئی تو ایسا شخص مجھے ڈھونڈ کے لا دو
انسانیت کا بوجھ جو ڈھوتا دکھائی دے


کیا نازکی ہے آج دل فتنہ ساز کی
خود کو لگے جو ٹھیس تو روتا دکھائی دے


گر لہروں کے مزاج کو سمجھے نہ ناخدا
ساحل پہ ہی سفینہ ڈبوتا دکھائی دے


ذوق جنوں میں خود کو فراموش کر دیا
شہنازؔ کو آرام نہ ہوتا دکھائی دے