جنس گراں تھی خوبیٔ قسمت نہیں ملی

جنس گراں تھی خوبیٔ قسمت نہیں ملی
بکنے کو ہم بھی آئے تھے قیمت نہیں ملی


ہنگام روز و شب کے مشاغل تھے اور بھی
کچھ کاروبار زیست سے فرصت نہیں ملی


کچھ دور ہم بھی ساتھ چلے تھے کہ یوں ہوا
کچھ مسئلوں پہ ان سے طبیعت نہیں ملی


اک آنچ تھی کہ جس سے سلگتا رہا وجود
شعلہ سا جاگ اٹھے وہ شدت نہیں ملی


وہ بے حسی تھی خشک ہوا سبزۂ امید
برسے جو صبح و شام و چاہت نہیں ملی


خواہش تھی جستجو بھی تھی دیوانگی نہ تھی
صحرا نورد بن کے بھی وحشت نہیں ملی


وہ روشنی تھی سائے بھی تحلیل ہو گئے
آئینہ گھر میں اپنی بھی صورت نہیں ملی