Shahid Kabir

شاہد کبیر

شاہد کبیر کی غزل

    نیند سے آنکھ کھلی ہے ابھی دیکھا کیا ہے

    نیند سے آنکھ کھلی ہے ابھی دیکھا کیا ہے دیکھ لینا ابھی کچھ دیر میں دنیا کیا ہے باندھ رکھا ہے کسی سوچ نے گھر سے ہم کو ورنہ اپنا در و دیوار سے رشتہ کیا ہے ریت کی اینٹ کی پتھر کی ہو یا مٹی کی کسی دیوار کے سائے کا بھروسا کیا ہے گھیر کر مجھ کو بھی لٹکا دیا مصلوب کے ساتھ میں نے لوگوں سے ...

    مزید پڑھیے

    جا کے ملتا ہوں نہ اپنا ہی پتا دیتا ہوں

    جا کے ملتا ہوں نہ اپنا ہی پتا دیتا ہوں میں اسے ہی نہیں خود کو بھی سزا دیتا ہوں روز دن بھر کی مشقت سے اٹھاتا ہوں جسے رات ہوتے ہی وہ دیوار گرا دیتا ہوں کون ہے مجھ میں جو باہر نہیں آنے پاتا کب سے میں جسم کے صحرا میں صدا دیتا ہوں کون سا کرب چھلکتا ہے ہنسی سے میری کیسے ہنستا ہوں کہ ...

    مزید پڑھیے

    حقیقتوں کا سبھی کو پتہ نہیں ہوتا

    حقیقتوں کا سبھی کو پتہ نہیں ہوتا کوئی کسی سے بچھڑ کے جدا نہیں ہوتا تعلقات نبھانا نہیں بہت مشکل ہر آدمی میں مگر حوصلہ نہیں ہوتا شراب خانے کا ہر شخص ہے برا لیکن شراب خانے میں کوئی برا نہیں ہوتا مری طرف سے شکایت کا انتظار نہ کر مجھے کسی سے بھی کوئی گلہ نہیں ہوتا کھلا یہ راز کئی ...

    مزید پڑھیے

    پکارتی ہے جو تجھ کو تری صدا ہی نہ ہو

    پکارتی ہے جو تجھ کو تری صدا ہی نہ ہو نہ یوں لپک کہ پلٹنے کو حوصلہ ہی نہ ہو تمام حرف ضروری نہیں ہوں بے معنی یہ آسمان ادھر جھک کے ٹوٹتا ہی نہ ہو ملے تھے یوں کہ جدا ہو کے ایسے ملتے ہیں ہمارے بیچ کبھی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو ہر ایک شخص بھٹکتا ہے تیرے شہر میں یوں کسی کی جیب میں جیسے ترا ...

    مزید پڑھیے

    بے سبب بات بڑھانے کی ضرورت کیا ہے

    بے سبب بات بڑھانے کی ضرورت کیا ہے ہم خفا کب تھے منانے کی ضرورت کیا ہے آپ کے دم سے تو دنیا کا بھرم ہے قائم آپ جب ہیں تو زمانے کی ضرورت کیا ہے تیرا کوچہ ترا در تیری گلی کافی ہے بے ٹھکانوں کو ٹھکانے کی ضرورت کیا ہے دل سے ملنے کی تمنا ہی نہیں جب دل میں ہاتھ سے ہاتھ ملانے کی ضرورت کیا ...

    مزید پڑھیے

    روح کو قید کیے جسم کے ہالوں میں رہے

    روح کو قید کیے جسم کے ہالوں میں رہے لوگ مکڑی کی طرح اپنے ہی جالوں میں رہے جسم کو آئنہ دکھلاتے ہیں سائے ورنہ آدمی کے لیے اچھا تھا اجالوں میں رہے وقت سے پہلے ہو کیوں ذہن پہ خورشید کا بوجھ رات باقی ہے ابھی چاند پیالوں میں رہے پھر تو رہنا ہی ہے گھورے کا مقدر ہو کر پھول تازہ ہے ابھی ...

    مزید پڑھیے

    زمیں پہ چل نہ سکا آسمان سے بھی گیا

    زمیں پہ چل نہ سکا آسمان سے بھی گیا کٹا کے پر کو پرندہ اڑان سے بھی گیا کسی کے ہاتھ سے نکلا ہوا وہ تیر ہوں جو ہدف کو چھو نہ سکا اور کمان سے بھی گیا بھلا دیا تو بھلانے کی انتہا کر دی وہ شخص اب مرے وہم و گمان سے بھی گیا تباہ کر گئی پکے مکان کی خواہش میں اپنے گاؤں کے کچے مکان سے بھی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2