جا کے ملتا ہوں نہ اپنا ہی پتا دیتا ہوں

جا کے ملتا ہوں نہ اپنا ہی پتا دیتا ہوں
میں اسے ہی نہیں خود کو بھی سزا دیتا ہوں


روز دن بھر کی مشقت سے اٹھاتا ہوں جسے
رات ہوتے ہی وہ دیوار گرا دیتا ہوں


کون ہے مجھ میں جو باہر نہیں آنے پاتا
کب سے میں جسم کے صحرا میں صدا دیتا ہوں


کون سا کرب چھلکتا ہے ہنسی سے میری
کیسے ہنستا ہوں کہ دنیا کو رلا دیتا ہوں


ٹھوکریں کھا کے سنبھلتا نہیں لیکن شاہدؔ
کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹا دیتا ہوں