Shahid Kabir

شاہد کبیر

شاہد کبیر کی غزل

    کیا فرض ہے یہ جسم کے زنداں میں سزا دے

    کیا فرض ہے یہ جسم کے زنداں میں سزا دے میں خاک اگر ہوں تو ہواؤں میں اڑا دے اک عمر سے محسوس کیے جاتا ہوں خود کو کوئی مجھے چھوکر مرے ہونے کا پتا دے میں جنبش انگشت میں محفوظ رہوں گا ہر چند مجھے ریت پہ تو لکھ کے مٹا دے اجڑا ہوا یہ پیڑ بھی دے جائے گا منظر سوکھی ہوئی شاخوں میں کوئی چاند ...

    مزید پڑھیے

    تم سے ملتے ہی بچھڑنے کے وسیلے ہو گئے

    تم سے ملتے ہی بچھڑنے کے وسیلے ہو گئے دل ملے تو جان کے دشمن قبیلے ہو گئے آج ہم بچھڑے ہیں تو کتنے رنگیلے ہو گئے میری آنکھیں سرخ تیرے ہاتھ پیلے ہو گئے اب تری یادوں کے نشتر بھی ہوئے جاتے ہیں کند ہم کو کتنے روز اپنے زخم چھیلے ہو گئے کب کی پتھر ہو چکی تھیں منتظر آنکھیں مگر چھو کے جب ...

    مزید پڑھیے

    ہر آئنہ میں بدن اپنا بے لباس ہوا

    ہر آئنہ میں بدن اپنا بے لباس ہوا میں اپنے زخم دکھا کر بہت اداس ہوا جو رنگ بھر دو اسی رنگ میں نظر آئے یہ زندگی نہ ہوئی کانچ کا گلاس ہوا میں کوہسار پہ بہتا ہوا وہ جھرنا ہوں جو آج تک نہ کسی کے لبوں کی پیاس ہوا قریب ہم ہی نہ جب ہو سکے تو کیا حاصل مکان دونوں کا ہر چند پاس پاس ہوا کچھ ...

    مزید پڑھیے

    غم کا خزانہ تیرا بھی ہے میرا بھی

    غم کا خزانہ تیرا بھی ہے میرا بھی یہ نذرانہ تیرا بھی ہے میرا بھی اپنے غم کو گیت بنا کر گا لینا راگ پرانا تیرا بھی ہے میرا بھی کون ہے اپنا کون پرایا کیا سوچیں چھوڑ زمانہ تیرا بھی ہے میرا بھی شہر میں گلیوں گلیوں جس کا چرچا ہے وہ افسانہ تیرا بھی ہے میرا بھی تو مجھ کو اور میں تجھ کو ...

    مزید پڑھیے

    پایا نہیں وہ جو کھو رہا ہوں

    پایا نہیں وہ جو کھو رہا ہوں تقدیر کو اپنی رو رہا ہوں اس سوچ میں زندگی بتا دی جاگا ہوا ہوں کہ سو رہا ہوں پھر کس سے اٹھے گا بوجھ میرا اس فکر میں خود کو ڈھو رہا ہوں کانٹوں کو پلا کے خون اپنا راہوں میں گلاب بو رہا ہوں جھرنا ہو ندی ہو یا سمندر کوزے میں سب سمو رہا ہوں ہر رنگ گنوا چکا ...

    مزید پڑھیے

    کرب چہرے سے مہ و سال کا دھویا جائے

    کرب چہرے سے مہ و سال کا دھویا جائے آج فرصت سے کہیں بیٹھ کے رویا جائے پھر کسی نظم کی تمہید اٹھائی جائے پھر کسی جسم کو لفظوں میں سمویا جائے کچھ تو ہو رات کی سرحد میں اترنے کی سزا گرم سورج کو سمندر میں ڈبویا جائے بج گئے رات کے دو اب تو وہ آنے سے رہے آج اپنا ہی بدن اوڑھ کے سویا ...

    مزید پڑھیے

    اندر کا سکوت کہہ رہا ہے

    اندر کا سکوت کہہ رہا ہے مٹی کا مکان بہہ رہا ہے شبنم کے عمل سے گل تھا لرزاں سورج کا عتاب سہہ رہا ہے بستر میں کھلا کہ تھا اکہرا وہ جسم جو تہہ بہ تہہ رہا ہے پتھر کو نچوڑنے سے حاصل ہر چند ندی میں رہ رہا ہے آئینہ پگھل چکا ہے شاہدؔ ساکت ہوں میں عکس بہہ رہا ہے

    مزید پڑھیے

    ریت کی لہروں سے دریا کی روانی مانگے

    ریت کی لہروں سے دریا کی روانی مانگے میں وہ پیاسا ہوں جو صحراؤں سے پانی مانگے تو وہ خود سر کہ الجھ جاتا ہے آئینوں سے میں وہ سرکش کہ جو تجھ سے ترا ثانی مانگے وہ بھی دھرتی پہ اتاری ہوئی مخلوق ہی ہے جس کا کاٹا ہوا انسان نہ پانی مانگے ابر تو ابر شجر بھی ہیں ہوا کی زد میں کس سے دم بھر ...

    مزید پڑھیے

    ٹھکراؤ اب کہ پیار کرو میں نشے میں ہوں

    ٹھکراؤ اب کہ پیار کرو میں نشے میں ہوں جو چاہو میرے یار کرو میں نشے میں ہوں اب بھی دلا رہا ہوں یقین وفا مگر میرا نہ اعتبار کرو میں نشے میں ہوں اب تم کو اختیار ہے اے اہل کارواں جو راہ اختیار کرو میں نشے میں ہوں گرنے دو تم مجھے مرا ساغر سنبھال لو اتنا تو میرے یار کرو میں نشے میں ...

    مزید پڑھیے

    کچھ دیر کالی رات کے پہلو میں لیٹ کے

    کچھ دیر کالی رات کے پہلو میں لیٹ کے لایا ہوں اپنے ہاتھوں میں جگنو سمیٹ کے دو چار داؤں کھیل کے وہ سرد پڑ گیا اب کیا کرو گے تاش کے پتوں کو پھیٹ کے اس سانولے سے جسم کو دیکھا ہی تھا کہ بس گھلنے لگے زباں پہ مزے چاکلیٹ کے جیسے کوئی لباس نہ ہو اس کے جسم پر یوں راستہ چلے ہے بدن کو سمیٹ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2