Shahid Kabir

شاہد کبیر

شاہد کبیر کے تمام مواد

17 غزل (Ghazal)

    کیا فرض ہے یہ جسم کے زنداں میں سزا دے

    کیا فرض ہے یہ جسم کے زنداں میں سزا دے میں خاک اگر ہوں تو ہواؤں میں اڑا دے اک عمر سے محسوس کیے جاتا ہوں خود کو کوئی مجھے چھوکر مرے ہونے کا پتا دے میں جنبش انگشت میں محفوظ رہوں گا ہر چند مجھے ریت پہ تو لکھ کے مٹا دے اجڑا ہوا یہ پیڑ بھی دے جائے گا منظر سوکھی ہوئی شاخوں میں کوئی چاند ...

    مزید پڑھیے

    تم سے ملتے ہی بچھڑنے کے وسیلے ہو گئے

    تم سے ملتے ہی بچھڑنے کے وسیلے ہو گئے دل ملے تو جان کے دشمن قبیلے ہو گئے آج ہم بچھڑے ہیں تو کتنے رنگیلے ہو گئے میری آنکھیں سرخ تیرے ہاتھ پیلے ہو گئے اب تری یادوں کے نشتر بھی ہوئے جاتے ہیں کند ہم کو کتنے روز اپنے زخم چھیلے ہو گئے کب کی پتھر ہو چکی تھیں منتظر آنکھیں مگر چھو کے جب ...

    مزید پڑھیے

    ہر آئنہ میں بدن اپنا بے لباس ہوا

    ہر آئنہ میں بدن اپنا بے لباس ہوا میں اپنے زخم دکھا کر بہت اداس ہوا جو رنگ بھر دو اسی رنگ میں نظر آئے یہ زندگی نہ ہوئی کانچ کا گلاس ہوا میں کوہسار پہ بہتا ہوا وہ جھرنا ہوں جو آج تک نہ کسی کے لبوں کی پیاس ہوا قریب ہم ہی نہ جب ہو سکے تو کیا حاصل مکان دونوں کا ہر چند پاس پاس ہوا کچھ ...

    مزید پڑھیے

    غم کا خزانہ تیرا بھی ہے میرا بھی

    غم کا خزانہ تیرا بھی ہے میرا بھی یہ نذرانہ تیرا بھی ہے میرا بھی اپنے غم کو گیت بنا کر گا لینا راگ پرانا تیرا بھی ہے میرا بھی کون ہے اپنا کون پرایا کیا سوچیں چھوڑ زمانہ تیرا بھی ہے میرا بھی شہر میں گلیوں گلیوں جس کا چرچا ہے وہ افسانہ تیرا بھی ہے میرا بھی تو مجھ کو اور میں تجھ کو ...

    مزید پڑھیے

    پایا نہیں وہ جو کھو رہا ہوں

    پایا نہیں وہ جو کھو رہا ہوں تقدیر کو اپنی رو رہا ہوں اس سوچ میں زندگی بتا دی جاگا ہوا ہوں کہ سو رہا ہوں پھر کس سے اٹھے گا بوجھ میرا اس فکر میں خود کو ڈھو رہا ہوں کانٹوں کو پلا کے خون اپنا راہوں میں گلاب بو رہا ہوں جھرنا ہو ندی ہو یا سمندر کوزے میں سب سمو رہا ہوں ہر رنگ گنوا چکا ...

    مزید پڑھیے

تمام