پھر وہی رات
پھر وہی رات ہے ویرانئ دل ہے میں ہوں
تم نہ مل کر جو بچھڑتیں تو بہت آساں تھا
زیست کے اجنبی رستوں سے گزرنا میرا
تم نے بدلا جو نہ ہوتا مرا معیار نظر
کوئی مشکل نہ تھا دنیا میں بہلنا میرا
اپنی تنہائی کا درد آج کہاں سے لاؤں
کس سے فریاد کروں کس سے مداوا چاہوں
بھول تک بھی نہ سکوں جس کو بھلانا چاہوں
اے مری وحشت دل تو ہی بتا کیا چاہوں
رنگ رخسار گل و لالہ میں کب تک ڈھونڈوں
لب سمجھ کر ترے شعلوں کو کہاں تک چوموں
مرمریں جسم کے احساس میں کھویا کھویا
چاندنی راتوں میں بے وجہ کہاں تک گھوموں
تیرے انفاس کی خوشبو سے معطر ہے جو دل
نکہت لالہ و گل سے وہ کہاں بہلے گا
جس نے کل تک ترے کھلتے ہوئے لب دیکھے تھے
آج کلیوں کے چٹکنے کو کہاں سمجھے گا
ایک کوندا سا تو لپکا تھا مری آنکھوں میں
پھر اندھیرے کے سوا کچھ نظر آیا نہ مجھے
اک ستارہ سا تو ٹوٹا تھا مری راتوں میں
معجزہ پھر کوئی آنکھوں نے دکھایا نہ مجھے
پھر وہی رات ہے ویرانئ دل ہے میں ہوں