دور خزاں میں مظہر جوش بہار تھے
دور خزاں میں مظہر جوش بہار تھے
وہ ہاتھ جن میں جیب و گریباں کے تار تھے
دل ہی کو اعتبار نہ آیا میں کیا کروں
وعدے تمہارے لائق صد اعتبار تھے
ان کے بغیر گزرے جو ان کے خیال میں
لمحے وہی تو اشک شب انتظار تھے
جذبے جواں ہوئے جو صلیبوں کے درمیاں
احساس زندگی کا حسیں شاہکار تھے
اک تیری یاد تھی کہ جو دل میں بسی رہی
کہنے کو یوں تو میرے بہت غم گسار تھے
جو ہنستے ہنستے پی گئے ہر تلخ بات کو
وہ رند میکدے میں بڑے با وقار تھے
مجبوریاں بھی ہوتی ہیں کچھ زندگی کے ساتھ
کیا ہم خوشی سے اپنے غموں کے شکار تھے
دریا کی موج موج نے کیا کیا کئے سلوک
کچھ وہ بتا سکیں گے جو طوفاں کے پار تھے
شاہدؔ یہ انقلاب زمانہ تو دیکھیے
مفلس وہ ہو گئے ہیں کہ جو تاجدار تھے