بڑھتے بڑھتے یہ اندھیرے روشنی تک آ گئے
بڑھتے بڑھتے یہ اندھیرے روشنی تک آ گئے
یاس کے لمحے ہماری زندگی تک آ گئے
کل نہ جانے کیا مذاق منزل مقصود ہو
آج کے رہبر فروغ گمرہی تک آ گئے
کس کو کیا حاصل ہوا ہے اس جہان شوق میں
ہوش والے بے سبب دیوانگی تک آ گئے
آج تک سلجھے ہوئے تھے جو ہمارے سامنے
مسئلے ایسے بھی کچھ پیچیدگی تک آ گئے
جو یہ کہتے تھے بجائے خود نشہ ہے زندگی
ایسے کچھ انسان بھی تو مے کشی تک آ گئے
اس زمانے نے دئے کچھ دوست ایسے بھی ہمیں
دوستی کی راہ سے جو دشمنی تک آ گئے
اب زمانے کی زباں کو کون روکے گا حضور
آپ نے یہ کیا کیا اک اجنبی تک آ گئے
اب کہاں روکے سے شاہدؔ رک سکیں گے انقلاب
جن کو آنا تھا وہ حد برہمی تک آ گئے