حوصلہ لائے کہاں سے کوئی دیوانے کا

حوصلہ لائے کہاں سے کوئی دیوانے کا
منزل غم میں ارادہ ہے ٹھہر جانے کا


سلسلہ چھڑ گیا جب طور کے افسانے کا
اک بہانہ تو ملا تیرے قریب آنے کا


ایک مدت سے یہ پیغام ہے دیوانے کا
وقت ہے دار و رسن سے بھی گزر جانے کا


پرسش غم کو وہ آئے ہیں پشیماں ہو کر
زندگی کا مجھے موقع ہے نہ مر جانے کا


دشمن ہوش و خرد لوگ کہیں گے تجھ کو
میں تو ممنون ہوں ناصح ترے سمجھانے کا


آپ کی انجمن ناز سے آگے بڑھ کر
اک مقام اور بھی ہے دل کے تڑپ جانے کا


انگلیاں لوگ اٹھاتے ہیں سر راہ حیات
آپ کیوں بن گئے عنواں مرے افسانے کا


ناخدا موج حوادث سے ڈرا جاتا ہے
اور یہی وقت ہے طوفان سے ٹکرانے کا


کشمکش دونوں جگہ دیکھ رہا ہوں شاہدؔ
اب نہ کعبے کا ارادہ ہے نہ بت خانے کا