Shaheena Kishwar

شاہینہ کشور

شاہینہ کشور کی غزل

    جو دل میں رواں ہے روایت نہیں ہے

    جو دل میں رواں ہے روایت نہیں ہے یہ سچ ہے محبت سہولت نہیں ہے تمہیں بھول جانے کی کوشش بہت ہے اگرچہ بھلانے کی طاقت نہیں ہے مجھے اس نے چھوڑا مرا دل بھی توڑا مجھے اس پہ کوئی بھی حیرت نہیں ہے نہ پندار میرا یوں کرتے فنا تم کہ اب غم اٹھانے کی ہمت نہیں ہے ضرورت ٹھکانے لگا دی ہے ...

    مزید پڑھیے

    تری نظر سے چھپا کے رکھوں

    تری نظر سے چھپا کے رکھوں میں کیسے خود کو بچا کے رکھوں زمانے تجھ کو گلہ ہے مجھ سے میں کیسے دنیا بسا کے رکھوں مری نظر آسمان پر ہے زمیں پہ کیسے جھکا کے رکھوں رقیب رکھتے ہیں لاکھ شکوے حبیب کیسے منا کے رکھوں درخت مجھ پر ہیں جان دیتے میں پھول کیسے سجا کے رکھوں فلک سے اترے ہیں چاند ...

    مزید پڑھیے

    اپنے ہاتھوں سے نشیمن کو جلایا ہم نے

    اپنے ہاتھوں سے نشیمن کو جلایا ہم نے عشق کی راکھ کو سینے سے لگایا ہم نے درد کی آگ کو شعلوں سے شناسا کر کے لذت ہجر کی حدت کو چھپایا ہم نے روح کی پیاس بجھانے کا ارادہ باندھا وادیٔ عشق میں اک پھول کھلایا ہم نے ایک بے پردہ محبت کو سمجھ کر سچ ہے جبر کو صبر کا ہم راز بنایا ہم نے راہ کی ...

    مزید پڑھیے

    مجھے محبت سے دیکھتی ہیں تمہاری آنکھیں

    مجھے محبت سے دیکھتی ہیں تمہاری آنکھیں بڑے قرینے سے چومتی ہیں تمہاری آنکھیں میں آسماں کا طواف کرنے لگوں تو پہلے کلام کر کے سنبھالتی ہیں تمہاری آنکھیں دلوں میں جھانکیں تو ایک پل میں بڑے سکوں سے دلوں سے نفرت نکالتی ہیں تمہاری آنکھیں چمکتی جاتی ہیں تیرگی میں خموش رہ کر کمال ...

    مزید پڑھیے

    جو دل میں جاگی وہی طلب ہے

    جو دل میں جاگی وہی طلب ہے خوشی ہماری بڑی طلب ہے کہاں ہوا ہے سکوں میسر ابھی بھی ہم کو تری طلب ہے کمال دکھ ہے نئی محبت نئے دنوں کی نئی طلب ہے وہ مجھ سے اکتا گیا ہے کب کا اسے کہاں اب مری طلب ہے یہ دل جسے سب اجاڑتے ہیں خدا کی بھیجی ہوئی طلب ہے ہمارے ہونٹوں کو جان کشورؔ دعا میں ڈوبی ...

    مزید پڑھیے