اپنے ہاتھوں سے نشیمن کو جلایا ہم نے
اپنے ہاتھوں سے نشیمن کو جلایا ہم نے
عشق کی راکھ کو سینے سے لگایا ہم نے
درد کی آگ کو شعلوں سے شناسا کر کے
لذت ہجر کی حدت کو چھپایا ہم نے
روح کی پیاس بجھانے کا ارادہ باندھا
وادیٔ عشق میں اک پھول کھلایا ہم نے
ایک بے پردہ محبت کو سمجھ کر سچ ہے
جبر کو صبر کا ہم راز بنایا ہم نے
راہ کی دھول کو راہبر ہی سمجھ بیٹھے تھے
آبلہ پا تھے مگر نام کمایا ہم نے
تیرے ہونٹوں کے لئے باغ کی شرطیں مانیں
پھول کے جسم سے رنگوں کو چرایا ہم نے
دل کی کشتی کو کنارے سے لگایا کشورؔ
اور پھر اس میں محبت کو بٹھایا ہم نے