تری نظر سے چھپا کے رکھوں

تری نظر سے چھپا کے رکھوں
میں کیسے خود کو بچا کے رکھوں


زمانے تجھ کو گلہ ہے مجھ سے
میں کیسے دنیا بسا کے رکھوں


مری نظر آسمان پر ہے
زمیں پہ کیسے جھکا کے رکھوں


رقیب رکھتے ہیں لاکھ شکوے
حبیب کیسے منا کے رکھوں


درخت مجھ پر ہیں جان دیتے
میں پھول کیسے سجا کے رکھوں


فلک سے اترے ہیں چاند تارے
میں کیسے کرنیں دبا کے رکھوں


چھپائے دل کے ہیں داغ کشورؔ
جبیں پہ کیسے لگا کے رکھوں