Shaheen Abbas

شاہین عباس

شاہین عباس کی غزل

    صبح وفا سے ہجر کا لمحہ جدا کرو

    صبح وفا سے ہجر کا لمحہ جدا کرو منزل سے گرد، گرد سے رستہ جدا کرو اک نقش ہو نہ پائے ادھر سے ادھر مرا جیسا تمہیں ملا تھا میں ویسا جدا کرو شب زادگاں! تم اہل خبر سے نہیں سو تم! اپنا مدار اپنا مدینہ جدا کرو یاں پے بہ پے جو خواب کھلے نے بہ نے کھلے جتنا جدا یہ ہو سکے اتنا جدا کرو میں تھا ...

    مزید پڑھیے

    دیے کا کام اب آنکھیں دکھانا رہ گیا ہے

    دیے کا کام اب آنکھیں دکھانا رہ گیا ہے یہ سیدھا جل چکا الٹا جلانا رہ گیا ہے ہمیں سامان پورا کر نہیں پائے کہ چلتے سو رہتے رہتے اس جنگل سے جانا رہ گیا ہے سر کوہ ندا یہ پہلی پہلی خامشی ہے کوئی آواز ہے جس کا لگانا رہ گیا ہے یہ دو بازو ہیں سو تھوڑی ہیں کھولوں اور بتا دوں مرے اطراف میں ...

    مزید پڑھیے

    میں دنیا کی خاطر ہوں دل ہونے والا

    میں دنیا کی خاطر ہوں دل ہونے والا مرا عہد ہے مستقل ہونے والا خدا ایسا تنہا کسی کو نہ رکھے کوئی بھی نہ ہو جب مخل ہونے والا پس آب و گل میں دکھا بھی چکا ہوں تماشا سر آب و گل ہونے والا سفینے بھرے آ رہے ہیں برابر ہے دریا کہیں منتقل ہونے والا وہی ایک ہم ہیں وہی ایک تم ہو یہ عالم نہیں ...

    مزید پڑھیے

    نقش کرتا رم و رفتار عناں گیر کو میں

    نقش کرتا رم و رفتار عناں گیر کو میں کیسا چھنکاتا ہوا چلتا ہوں زنجیر کو میں غیب و غفلت کا ادھر جشن منا لوں تو چلوں ابھی تاخیر سمجھتا نہیں تاخیر کو میں خامشی میری کچھ ایسی ہدف آگاہ نہیں بات بے بات چلا دیتا ہوں اس تیر کو میں ساتواں دن مگر اچھا نہیں گزرا میرا چھ دن الٹاتا رہا پردۂ ...

    مزید پڑھیے

    کیسا کیسا در پس دیوار کرنا پڑ گیا

    کیسا کیسا در پس دیوار کرنا پڑ گیا گھر کے اندر اور گھر تیار کرنا پڑ گیا اس کنارے نے کہا کیا کیا کہوں کیا بات تھی بات ایسی تھی کہ دریا پار کرنا پڑ گیا پھر بساط خواب اٹھائی اور اوجھل ہو گئے شام کا منظر ہمیں ہموار کرنا پڑ گیا اک ذرا سا راستہ مانگا تھا ویرانی نے کیا اپنا سارا گھر ...

    مزید پڑھیے

    در امکاں سے گزر کر سر منظر آ کر

    در امکاں سے گزر کر سر منظر آ کر ہم عجب لہر میں ہیں اپنے نئے گھر آ کر جسے جانا ہی نہیں اپنے کناروں سے جدا اسے دیکھا بھی نہیں موج سے باہر آ کر آتش غم پہ نظر کی ہے کچھ ایسے کہ یہ آنچ بات کر سکتی ہے اب مرے برابر آ کر تو نے کس حرف کے آہنگ میں ڈھالا تھا مجھے سانس بھی ٹوٹ رہا ہے سر محضر آ ...

    مزید پڑھیے

    تجھ میں کتنا گم ہوں اور کتنا نظر آتا ہوں میں

    تجھ میں کتنا گم ہوں اور کتنا نظر آتا ہوں میں آتا جاتا آئنوں کو منہ دکھا جاتا ہوں میں اس کے بعد اگلی قیامت کیا ہے کس کو ہوش ہے زخم سہلاتا تھا اور اب داغ دکھلاتا ہوں میں نقش بر دیوار ہوں اور بات کر سکتا نہیں ایسی حالت میں بھی جو کہتا ہوں منواتا ہوں میں خاکساری ہی نہیں یہ غم گساری ...

    مزید پڑھیے

    موجۂ خون پریشان کہاں جاتا ہے

    موجۂ خون پریشان کہاں جاتا ہے مجھ سے آگے مرا طوفان کہاں جاتا ہے میں تو جاتا ہوں بیابان نظر کے اس پار میرے ہم راہ بیابان کہاں جاتا ہے اب تو دریا میں بندھے بیٹھے ہیں دریا کی طرح اب کناروں کی طرف دھیان کہاں جاتا ہے چائے کی پیالی میں تصویر وہی ہے کہ جو تھی یوں چلے جانے سے مہمان ...

    مزید پڑھیے

    بنتے بنتے اپنے پیچ و خم بنے

    بنتے بنتے اپنے پیچ و خم بنے تو بنا پھر میں بنا پھر ہم بنے ایک آنسو تھا گرا اور چل پڑا ایک عالم تھا سو دو عالم بنے اک قدم اٹھا کہیں پہلا قدم خاک اڑی اور اپنے سارے غم بنے اپنی آوازوں کو چپ رہ کر سنا تب کہیں جا کر یہ زیر و بم بنے آنکھ بننے میں بہت دن لگ گئے دیکھیے کب آنکھ اندر نم ...

    مزید پڑھیے

    محبت میں نہ جانے کیوں ہمیں فرصت زیادہ ہے

    محبت میں نہ جانے کیوں ہمیں فرصت زیادہ ہے ہمارا کام تھوڑا ہے مگر مہلت زیادہ ہے ہمیں اس عالم ہجراں میں بھی رک رک کے چلنا ہے انہیں جانے دیا جائے جنہیں عجلت زیادہ ہے یہ دل باہر دھڑکتا ہے یہ آنکھ اندر کو کھلتی ہے ہم ایسے مرحلے میں ہیں جہاں زحمت زیادہ ہے سو ہم فریادیوں کی ایک اپنی صف ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4