Shaheen Abbas

شاہین عباس

شاہین عباس کی غزل

    آنکھوں سے یوں چراغوں میں ڈالی ہے روشنی

    آنکھوں سے یوں چراغوں میں ڈالی ہے روشنی ہم جیسی چاہتے تھے بنا لی ہے روشنی دریا غروب ہونے چلا تھا کہ آج رات غرقاب کشتیوں نے اچھالی ہے روشنی اپنی نشست چھوڑ کے واں رکھ دیا چراغ میں نے زمین دے کے بچا لی ہے روشنی ہاتھوں کا امتحان لیا ساری ساری رات سانچے میں صبح و شام کے ڈھالی ہے ...

    مزید پڑھیے

    مرے بننے سے کیا کیا بن رہا تھا

    مرے بننے سے کیا کیا بن رہا تھا میں بننے کو اکیلا بن رہا تھا اور اب جب تن چکا تو شرم آئی کئی دن سے یہ پردہ بن رہا تھا زیادہ ہو رہی تھیں دو سرائیں میں پھر محفل کا حصہ بن رہا تھا قیامت اور قیامت پر قیامت میں خوش تھا میرا حلقہ بن رہا تھا فلک مٹ سا گیا حد نظر تک ستارہ ہی اک ایسا بن رہا ...

    مزید پڑھیے

    کچھ بھی نہ جب دکھائی دے تب دیکھتا ہوں میں

    کچھ بھی نہ جب دکھائی دے تب دیکھتا ہوں میں پھر بھی یہ خوف سا ہے کہ سب دیکھتا ہوں میں آنکھیں تمہارے ہاتھ پہ رکھ کر میں چل دیا اب تم پہ منحصر ہے کہ کب دیکھتا ہوں میں آہٹ عقب سے آئی اور آگے نکل گئی جو پہلے دیکھنا تھا وہ اب دیکھتا ہوں میں یہ وقت بھی بتاتا ہے آداب وقت بھی اس ٹوٹتے ...

    مزید پڑھیے

    سیاہی گرتی رہے اور دیا خراب نہ ہو

    سیاہی گرتی رہے اور دیا خراب نہ ہو یہ طاق چشم اب اتنا بھی کیا خراب نہ ہو ہر آنے والا اسی طرح سے تجھے چاہے مری بنائی ہوئی یہ فضا خراب نہ ہو ازل ابد میں ٹھنی ہے سو میں نکلتا ہوں مری کڑی سے ترا سلسلہ خراب نہ ہو ہم اس ہوا سے تو کہتے ہیں کیوں بجھایا چراغ کہیں چراغ کی اپنی ہوا خراب نہ ...

    مزید پڑھیے

    دیکھنا ہے کب زمیں کو خالی کر جاتا ہے دن

    دیکھنا ہے کب زمیں کو خالی کر جاتا ہے دن اس قدر آتا نہیں ہے جس قدر جاتا ہے دن منتشر چلیے کہ یوں بازار بھر جاتا تو ہے مشتہر کیجے کہ پھر اچھا گزر جاتا ہے دن جب ذرا رد و بدل ہوتا ہے اس تعمیر میں باہر آ جاتی ہے رات اندر اتر جاتا ہے دن دن کی اپنی مستقل کوئی نہیں تاریخ درد زخم پر جاتا ...

    مزید پڑھیے

    خود میں اتریں تو پلٹ کر واپس آ سکتے نہیں

    خود میں اتریں تو پلٹ کر واپس آ سکتے نہیں ورنہ کیا ہم اپنی گہرائی کو پا سکتے نہیں خوشبوئیں کپڑوں میں نادیدہ چمن زاروں کی ہیں ہم کہاں سے ہو کے آئے ہیں بتا سکتے نہیں ہم نے ان گلیوں میں چلنے کی رعایت لی ہے بس دیکھ سکتے ہیں ہمیں یہ گھر بسا سکتے نہیں یہ بھرم منظر کا بھی ہے اور پس منظر ...

    مزید پڑھیے

    دعا ہم زاد ہو سکتی دیا ہم راز ہو سکتا

    دعا ہم زاد ہو سکتی دیا ہم راز ہو سکتا میں ویرانی پہ اتنا تو اثر انداز ہو سکتا یہ میری خامشی اس انتہا کی خامشی ہوتی کسی بھی شام کا میں نقطۂ آغاز ہو سکتا میں بیتابانہ ان گلیوں میں پھرتا یہ مرا حق تھا مری دستک پہ شہر خواب کا در باز ہو سکتا یہ دن اور رات کس جانب اڑے جاتے ہیں صدیوں ...

    مزید پڑھیے

    جھگڑے اپنے بھی ہوں جب چاک گریبانوں کے

    جھگڑے اپنے بھی ہوں جب چاک گریبانوں کے کام ہوتے ہوئے رہ جاتے ہیں ویرانوں کے جیسے آنکھوں کے یہ دو تل ہوں جو تبدیل نہ ہوں غول آتے ہوئے جاتے ہوئے انسانوں کے لوگ ہی لوگ اڑے جاتے ہیں گلیوں گلیوں ہم نے کچھ نقشے اچھالے تھے بیابانوں کے آسماں گرتا ہوا صاف نظر آتا ہے بالا خانوں میں یہ در ...

    مزید پڑھیے

    دانے کے بعد کچھ نہیں دام کے بعد کچھ نہیں

    دانے کے بعد کچھ نہیں دام کے بعد کچھ نہیں صبح کے بعد شام ہے شام کے بعد کچھ نہیں خواب کا آخری خمار آنکھ میں ہے کچھ انتظار نیند ذرا سا کام ہے کام کے بعد کچھ نہیں خاک خراب ہوں زمیں تو مرا ماجرا نہ سن نقش کے بعد نام تھا نام کے بعد کچھ نہیں شہر کی حد بھی ماپ لی شام بھی دل پہ چھاپ لی ایک ...

    مزید پڑھیے

    گزرے نہیں اور گزر گئے ہم

    گزرے نہیں اور گزر گئے ہم اس بھیڑ کا کام کر گئے ہم یہ صحن گواہ ہے ہمارا اس گھر میں بھی در بہ در گئے ہم دریافت کو زخم کی چلے تھے تاریخ کی دھار پر گئے ہم اس بات پہ اب الجھ رہے ہیں باقی تھے تو پھر کدھر گئے ہم تصویر سے باہر آئے کچھ دیر گھر بھر کو اداس کر گئے ہم ورنہ یہ زمین مٹ چلی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4