آنکھوں سے یوں چراغوں میں ڈالی ہے روشنی
آنکھوں سے یوں چراغوں میں ڈالی ہے روشنی ہم جیسی چاہتے تھے بنا لی ہے روشنی دریا غروب ہونے چلا تھا کہ آج رات غرقاب کشتیوں نے اچھالی ہے روشنی اپنی نشست چھوڑ کے واں رکھ دیا چراغ میں نے زمین دے کے بچا لی ہے روشنی ہاتھوں کا امتحان لیا ساری ساری رات سانچے میں صبح و شام کے ڈھالی ہے ...