موجۂ خون پریشان کہاں جاتا ہے

موجۂ خون پریشان کہاں جاتا ہے
مجھ سے آگے مرا طوفان کہاں جاتا ہے


میں تو جاتا ہوں بیابان نظر کے اس پار
میرے ہم راہ بیابان کہاں جاتا ہے


اب تو دریا میں بندھے بیٹھے ہیں دریا کی طرح
اب کناروں کی طرف دھیان کہاں جاتا ہے


چائے کی پیالی میں تصویر وہی ہے کہ جو تھی
یوں چلے جانے سے مہمان کہاں جاتا ہے


داستاں گو کی نشانی کوئی رکھی ہے کہ وہ
داستاں گوئی کے دوران کہاں جاتا ہے


بات یوں ہی تو نہیں کرتا ہوں میں رک رک کر
کیا بتاؤں کہ مرا دھیان کہاں جاتا ہے


گھر بدلنا تو بہانہ ہے بہانہ کر کے
اندر اندر ہی سے انسان کہاں جاتا ہے