در امکاں سے گزر کر سر منظر آ کر

در امکاں سے گزر کر سر منظر آ کر
ہم عجب لہر میں ہیں اپنے نئے گھر آ کر


جسے جانا ہی نہیں اپنے کناروں سے جدا
اسے دیکھا بھی نہیں موج سے باہر آ کر


آتش غم پہ نظر کی ہے کچھ ایسے کہ یہ آنچ
بات کر سکتی ہے اب مرے برابر آ کر


تو نے کس حرف کے آہنگ میں ڈھالا تھا مجھے
سانس بھی ٹوٹ رہا ہے سر محضر آ کر


اسے دیکھا تھا خط خواب کے اس پار کبھی
یہ ستارہ جو گرا ہے مرے اندر آ کر


اک صدا کوہ ندا سے کسی اپنے کی صدا
رونے لگ جاتی ہے اس دشت میں اکثر آ کر


شاخ تا شاخ عجب عالم وحشت ہے ابھی
طائر جاں کبھی ٹھہرا تھا مرے گھر آ کر