Shaheen Abbas

شاہین عباس

شاہین عباس کی غزل

    غبار شام وصل کا بھی چھٹ گیا

    غبار شام وصل کا بھی چھٹ گیا یہ آخری حجاب تھا جو ہٹ گیا حضوری و غیاب میں پڑا نہیں مجھے پلٹنا آتا تھا پلٹ گیا تری گلی کا اپنا ایک وقت تھا اسی میں میرا سارا وقت کٹ گیا خیال خام تھا سو چیخ اٹھا ہوں پھر مرا خیال تھا کہ میں نمٹ گیا ہمارے انہماک کا اڑا مذاق وہی ہوا نہ پھر ورق الٹ ...

    مزید پڑھیے

    کچھ نہیں لکھا ہوا پھر بھی پڑھا جاتا ہے کیا

    کچھ نہیں لکھا ہوا پھر بھی پڑھا جاتا ہے کیا ایسی ناموجود کو دنیا کہا جاتا ہے کیا ہم سخن تیرے مخاطب کا پتا کیسے کروں بولنا تھا کیا تجھے اور بولتا جاتا ہے کیا ایک دروازہ اور اندر دور تک کوئی نہیں آتے جاتے جھانک لینے سے ترا جاتا ہے کیا اس اندھیرے میں پڑے اک شخص کو دیکھا کبھی پاؤں ...

    مزید پڑھیے

    زمیں کا آخری منظر دکھائی دینے لگا

    زمیں کا آخری منظر دکھائی دینے لگا میں دیکھتا ہوا پتھر دکھائی دینے لگا وہ سامنے تھا تو کم کم دکھائی دیتا تھا چلا گیا تو برابر دکھائی دینے لگا نشان ہجر بھی ہے وصل کی نشانیوں میں کہاں کا زخم کہاں پر دکھائی دینے لگا وہ اس طرح سے مجھے دیکھتا ہوا گزرا میں اپنے آپ کو بہتر دکھائی دینے ...

    مزید پڑھیے

    جاری تھی ابھی دعا ہماری

    جاری تھی ابھی دعا ہماری اور ٹوٹ گئی صدا ہماری یاں راکھ سے بات چل رہی ہے تو شعلگی پر نہ جا ہماری جھونکا تھا گریز کے نشے میں دیوار گرا گیا ہماری دنیا میں سمٹ کے رہ گئے ہیں بس ہو چکی انتہا ہماری میں اور الجھ گیا ہوں تجھ میں زنجیر کھلی ہے کیا ہماری آ دیکھ جو ہم دکھا رہے ہیں آ بانٹ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4