محبت میں نہ جانے کیوں ہمیں فرصت زیادہ ہے
محبت میں نہ جانے کیوں ہمیں فرصت زیادہ ہے
ہمارا کام تھوڑا ہے مگر مہلت زیادہ ہے
ہمیں اس عالم ہجراں میں بھی رک رک کے چلنا ہے
انہیں جانے دیا جائے جنہیں عجلت زیادہ ہے
یہ دل باہر دھڑکتا ہے یہ آنکھ اندر کو کھلتی ہے
ہم ایسے مرحلے میں ہیں جہاں زحمت زیادہ ہے
سو ہم فریادیوں کی ایک اپنی صف الگ سے ہو
ہمارا مسئلہ یہ ہے ہمیں حیرت زیادہ ہے
سمجھ پائے نہیں دیکھے بغیر اس کا نظر آنا
مشقت کم سے کم کی تھی مگر اجرت زیادہ ہے
تماشا گاہ چاروں سمت سے پر شور ہے یعنی
کہیں جلوت زیادہ ہے کہیں خلوت زیادہ ہے
تجھے حلقہ بہ حلقہ کھینچتے پھرتے ہیں دنیا میں
سو اے زنجیر پا یوں بھی تری شہرت زیادہ ہے
یہ ساری آمد و رفت ایک جیسی تو نہیں شاہینؔ
کہ دنیا میں سفر کم کم ہے اور ہجرت زیادہ ہے