Shahab Jafri

شہاب جعفری

شہاب جعفری کی غزل

    سوئے شہر آئے اڑاتے پرچم صحرا کو ہم

    سوئے شہر آئے اڑاتے پرچم صحرا کو ہم اے جنوں اب کے الٹ کے رکھ ہی دیں دنیا کو ہم تھا کہیں ماضی میں تو اے حال اب آگے تیرا کام لے تو آئے تیری چوکھٹ تک ترے فردا کو ہم کتنے دانا ہیں لگا کر آگ سارے شہر کو ایک گنگا لے چلے جلتی ہوئی لنکا کو ہم مضطرب ہیں سارے سناٹے کہ آوازیں بنیں رہبرو دابے ...

    مزید پڑھیے

    دشت غربت ہے تو وہ کیوں ہیں خفا ہم سے بہت

    دشت غربت ہے تو وہ کیوں ہیں خفا ہم سے بہت ہم دکھی بیٹھے ہیں لگ چل نہ صبا ہم سے بہت کیا ہے دامن میں بجز گرد مہ و سال امید کیوں الجھتی ہے زمانے کی ہوا ہم سے بہت اب ہم اظہار الم کرنے لگے ہیں سب سے اب اٹھائی نہیں جاتی ہے جفا ہم سے بہت کون موسم ہے کہ پتھر سے لہو رستا ہے خوں بہا مانگے ہے ...

    مزید پڑھیے

    میں ہی میں بکھرا ہوا ہوں راہ تا منزل تمام

    میں ہی میں بکھرا ہوا ہوں راہ تا منزل تمام خاکداں تا آسماں چھایا ہے مستقبل تمام پی چکی کتنی ہی موجوں کا لہو ساحل کی ریت لاشیں ہی لاشیں نظر آئیں سر ساحل تمام گھر کو دن بھر کی متاع رہ نوردی سونپ دی سعئ پیہم کا غبار شہر تھا حاصل تمام دیکھنا سب نے اٹھا رکھی ہے کاندھوں پر صلیب بھیس ...

    مزید پڑھیے

    رتبۂ‌ درد کو جب اپنا ہنر پہنچے گا

    رتبۂ‌ درد کو جب اپنا ہنر پہنچے گا ہم نشیں ضبط سخن کا بھی اثر پہنچے گا بے صدارات سے عاجز ہے مرا دست جنوں کوئی دن تا بہ گریبان سحر پہنچے گا کھنچ کے رہ مجھ سے مگر ضبط کی تلقین نہ کر اب مری آہ سے تجھ کو نہ ضرر پہنچے گا باتوں باتوں میں سب احوال جدائی مت پوچھ کچھ کہوں گا تو ترے دل پہ ...

    مزید پڑھیے

    قید امکاں سے تمنا تھی گمیں چھوٹ گئی

    قید امکاں سے تمنا تھی گمیں چھوٹ گئی پاؤں ہم نے جب اٹھایا تو زمیں چھوٹ گئی لیے جاتا ہے خلاؤں میں جمال شب و روز دن کہیں چھوٹ گیا رات کہیں چھوٹ گئی زندگی کیا تھی میں اک موج کے پیچھے تھا رواں اور وہ موج کہ ساحل کے قریں چھوٹ گئی بود و باش اپنی نہ پوچھو کہ اسی شہر میں ہم زندگی لائے تھے ...

    مزید پڑھیے

    اس دھوپ سے کیا گلہ ہے مجھ کو

    اس دھوپ سے کیا گلہ ہے مجھ کو سائے نے جلا دیا ہے مجھ کو میں نالۂ سکوت سنگ کا ہوں صحرا نے بہت سنا ہے مجھ کو میں لفظ کی طرح بے زباں تھا معنی نے ادا کیا ہے مجھ کو ہر سچ کا نصیب سنگ ساری اور سچ ہی سے واسطہ ہے مجھ کو خائف نہیں مرگ ناگہاں سے سینے کا وہ حوصلہ ہے مجھ کو پتھر پہ مری صدا کا ...

    مزید پڑھیے

    ہوس زلف گرہ گیر لیے بیٹھے ہیں

    ہوس زلف گرہ گیر لیے بیٹھے ہیں آیت شوق کی تفسیر لیے بیٹھے ہیں آسماں ساتھ چلا گھر کی زمیں دور ہوئی تجھ سے دور اک رہ دلگیر لیے بیٹھے ہیں وجہ تعزیر ہوئی بے وطنی بھی جب سے عنبریں ہاتھوں کی تحریر لیے بیٹھے ہیں آپ سے آپ وہ کھلتی ہوئی زلفیں تیری اب اسی سوگ کی تصویر لیے بیٹھے ہیں ہائے ...

    مزید پڑھیے

    یاد اس کی ہے کچھ ایسی کہ بسرتی بھی نہیں

    یاد اس کی ہے کچھ ایسی کہ بسرتی بھی نہیں نیند آتی بھی نہیں رات گزرتی بھی نہیں زندگی ہے کہ کسی طرح گزرتی بھی نہیں آرزو ہے کہ مری موت سے ڈرتی بھی نہیں بس گزرتے چلے جاتے ہیں مہ و سال امید دو گھڑی گردش ایام ٹھہرتی بھی نہیں دور ہے منزل آفاق دکھی بیٹھے ہیں سخت ہے پاؤں کی زنجیر اترتی ...

    مزید پڑھیے

    حیات میں بھی اجل کا سماں دکھائی دے

    حیات میں بھی اجل کا سماں دکھائی دے وہی زمین وہی آسماں دکھائی دے قدم زمیں سے جدا ہیں نظر مناظر سے غریب شہر کو شہر آسماں دکھائی دے تمام شہر میں بے چہرگی کا عالم ہے جسے بھی دیکھیے گرد اور دھواں دکھائی دے اک ایک شخص ہجوم رواں میں تنہا ہے اک ایک شخص ہجوم رواں دکھائی دے کبھی سنو تو ...

    مزید پڑھیے

    شام رکھتی ہے بہت درد سے بیتاب مجھے

    شام رکھتی ہے بہت درد سے بیتاب مجھے لے کے چھپ جا کہیں اے آرزوئے خواب مجھے اب میں اک موج شب تار ہوں ساحل ساحل راہ میں چھوڑ گیا ہے مرا مہتاب مجھے اب تک اک شمع سیہ پوش ہوں صحرا صحرا تجھ سے چھٹ کر نہ ملی رہ گزر خواب مجھے ساحل‌ آب و سراب ایک ہے منزل منزل تشنگی کرتی ہے سیراب نہ غرقاب ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2