Shahab Jafri

شہاب جعفری

شہاب جعفری کے تمام مواد

15 غزل (Ghazal)

    سوئے شہر آئے اڑاتے پرچم صحرا کو ہم

    سوئے شہر آئے اڑاتے پرچم صحرا کو ہم اے جنوں اب کے الٹ کے رکھ ہی دیں دنیا کو ہم تھا کہیں ماضی میں تو اے حال اب آگے تیرا کام لے تو آئے تیری چوکھٹ تک ترے فردا کو ہم کتنے دانا ہیں لگا کر آگ سارے شہر کو ایک گنگا لے چلے جلتی ہوئی لنکا کو ہم مضطرب ہیں سارے سناٹے کہ آوازیں بنیں رہبرو دابے ...

    مزید پڑھیے

    دشت غربت ہے تو وہ کیوں ہیں خفا ہم سے بہت

    دشت غربت ہے تو وہ کیوں ہیں خفا ہم سے بہت ہم دکھی بیٹھے ہیں لگ چل نہ صبا ہم سے بہت کیا ہے دامن میں بجز گرد مہ و سال امید کیوں الجھتی ہے زمانے کی ہوا ہم سے بہت اب ہم اظہار الم کرنے لگے ہیں سب سے اب اٹھائی نہیں جاتی ہے جفا ہم سے بہت کون موسم ہے کہ پتھر سے لہو رستا ہے خوں بہا مانگے ہے ...

    مزید پڑھیے

    میں ہی میں بکھرا ہوا ہوں راہ تا منزل تمام

    میں ہی میں بکھرا ہوا ہوں راہ تا منزل تمام خاکداں تا آسماں چھایا ہے مستقبل تمام پی چکی کتنی ہی موجوں کا لہو ساحل کی ریت لاشیں ہی لاشیں نظر آئیں سر ساحل تمام گھر کو دن بھر کی متاع رہ نوردی سونپ دی سعئ پیہم کا غبار شہر تھا حاصل تمام دیکھنا سب نے اٹھا رکھی ہے کاندھوں پر صلیب بھیس ...

    مزید پڑھیے

    رتبۂ‌ درد کو جب اپنا ہنر پہنچے گا

    رتبۂ‌ درد کو جب اپنا ہنر پہنچے گا ہم نشیں ضبط سخن کا بھی اثر پہنچے گا بے صدارات سے عاجز ہے مرا دست جنوں کوئی دن تا بہ گریبان سحر پہنچے گا کھنچ کے رہ مجھ سے مگر ضبط کی تلقین نہ کر اب مری آہ سے تجھ کو نہ ضرر پہنچے گا باتوں باتوں میں سب احوال جدائی مت پوچھ کچھ کہوں گا تو ترے دل پہ ...

    مزید پڑھیے

    قید امکاں سے تمنا تھی گمیں چھوٹ گئی

    قید امکاں سے تمنا تھی گمیں چھوٹ گئی پاؤں ہم نے جب اٹھایا تو زمیں چھوٹ گئی لیے جاتا ہے خلاؤں میں جمال شب و روز دن کہیں چھوٹ گیا رات کہیں چھوٹ گئی زندگی کیا تھی میں اک موج کے پیچھے تھا رواں اور وہ موج کہ ساحل کے قریں چھوٹ گئی بود و باش اپنی نہ پوچھو کہ اسی شہر میں ہم زندگی لائے تھے ...

    مزید پڑھیے

تمام

8 نظم (Nazm)

    تسخیر فطرت کے بعد

    تسخیر فطرت کے بعد ہوا اے ہوا میں ترا ایک انگ ایک لہرا تھا صدیوں ترے ساتھ دشت دامن‌ کوہ صحرا میں آزاد و سرشار پھرتا رہا ہوں سمندر کی چھاتی پہ صدیوں ترے ساتھ بے فکر و بے دست چلتا رہا ہوں انوکھی زمینوں طلسمی جزیروں کو دریافت کرتا رہا ہوں مجھے تو نے فطرت کے بعد صنم خانۂ کائنات آزری ...

    مزید پڑھیے

    تسخیر فطرت کے بعد

    ہوا اے ہوا میں ترا ایک ایک انگ لہرا تھا صدیوں ترے ساتھ دشت و دمن کوہ و صحرا میں آزاد و سرشار پھرتا رہا ہوں سمندر کی چھاتی پہ صدیوں ترے ساتھ بد مست و بے فکر چلتا رہا ہوں انوکھی زمینوں طلسمی جزیروں کو دریافت کرتا رہا ہوں مجھے تو نے فطرت کے معبد صنم خانۂ کائنات، آذری کے طلسمات سے آ ...

    مزید پڑھیے

    میں

    کس قدر روشن ہیں اب ارض و سما نور ہی نور آسماں تا آسماں میرے اندر ڈوبتے چڑھتے ہوئے سورج کئی جسم میرا روشنی ہی روشنی پانو میرے نور کے پاتال میں ہاتھ میرے جگمگاتے آسمانوں کو سنبھالے سر مرا کاندھوں پہ اک سورج کہ نادیدہ خلاؤں سے پرے ابھرا ہوا اور زمیں کے روز و شب سے چھوٹ کر آگہی کی تیز ...

    مزید پڑھیے

    شہر انا میں

    یہ تیز دھوپ یہ کاندھوں پہ جاگتا سورج زمیں بلند ہے اتنی کہ آسماں کی رقیب وہ روشنی ہے وہ بیداریاں کہ سائے نہ خواب بس ایک ہوش بس اک آگہی بس اک احساس اور ان کے نور سے جلتے بدن پگھلتے بدن بدن ہیں کھولتے سیال آئینے ہر سو ہر آن بہتے سدا رہتیں بدلتے بدن دماغ دور سے ان کا نظارہ کرتا ہے اور ...

    مزید پڑھیے

    دوام

    مجھے آج محسوس یوں ہو رہا ہے کہ میں مر گیا ہوں مرا نام کچھ بھی ہو میں عام سا آدمی اس سے کچھ فرق پڑتا نہیں ایک احساس کے مختلف نام ہیں ساری دنیا میں جو شخص دنیا سے اٹھا ہے وہ میں ہوں میں جس نے دیکھا ہے ہر شخص میں خود کو مرتے ہوئے مجھ کو جس طرح چاہو پکارو کہ وہ مرنے والا تو میں ہی ...

    مزید پڑھیے

تمام