سوئے شہر آئے اڑاتے پرچم صحرا کو ہم
سوئے شہر آئے اڑاتے پرچم صحرا کو ہم
اے جنوں اب کے الٹ کے رکھ ہی دیں دنیا کو ہم
تھا کہیں ماضی میں تو اے حال اب آگے تیرا کام
لے تو آئے تیری چوکھٹ تک ترے فردا کو ہم
کتنے دانا ہیں لگا کر آگ سارے شہر کو
ایک گنگا لے چلے جلتی ہوئی لنکا کو ہم
مضطرب ہیں سارے سناٹے کہ آوازیں بنیں
رہبرو دابے ہیں اک پتھر تلے صحرا کو ہم
خاک کا ذرہ گہر کے مول تھا بازار میں
جو کے دانے کے لئے روتے ہیں ان داتا کو ہم
پیاس کہہ کہہ کر پکاریں بیچ دریا میں کھڑے
پانی پانی کہہ کے مانگیں ریت سے دریا کو ہم
دھوپ اگر ہوتی تو تن ڈھکنا کچھ آساں تھا شہابؔ
روشنی سے چھین لیتے پردۂ سایا کو ہم