Shahab Jafri

شہاب جعفری

شہاب جعفری کی نظم

    تسخیر فطرت کے بعد

    تسخیر فطرت کے بعد ہوا اے ہوا میں ترا ایک انگ ایک لہرا تھا صدیوں ترے ساتھ دشت دامن‌ کوہ صحرا میں آزاد و سرشار پھرتا رہا ہوں سمندر کی چھاتی پہ صدیوں ترے ساتھ بے فکر و بے دست چلتا رہا ہوں انوکھی زمینوں طلسمی جزیروں کو دریافت کرتا رہا ہوں مجھے تو نے فطرت کے بعد صنم خانۂ کائنات آزری ...

    مزید پڑھیے

    تسخیر فطرت کے بعد

    ہوا اے ہوا میں ترا ایک ایک انگ لہرا تھا صدیوں ترے ساتھ دشت و دمن کوہ و صحرا میں آزاد و سرشار پھرتا رہا ہوں سمندر کی چھاتی پہ صدیوں ترے ساتھ بد مست و بے فکر چلتا رہا ہوں انوکھی زمینوں طلسمی جزیروں کو دریافت کرتا رہا ہوں مجھے تو نے فطرت کے معبد صنم خانۂ کائنات، آذری کے طلسمات سے آ ...

    مزید پڑھیے

    میں

    کس قدر روشن ہیں اب ارض و سما نور ہی نور آسماں تا آسماں میرے اندر ڈوبتے چڑھتے ہوئے سورج کئی جسم میرا روشنی ہی روشنی پانو میرے نور کے پاتال میں ہاتھ میرے جگمگاتے آسمانوں کو سنبھالے سر مرا کاندھوں پہ اک سورج کہ نادیدہ خلاؤں سے پرے ابھرا ہوا اور زمیں کے روز و شب سے چھوٹ کر آگہی کی تیز ...

    مزید پڑھیے

    شہر انا میں

    یہ تیز دھوپ یہ کاندھوں پہ جاگتا سورج زمیں بلند ہے اتنی کہ آسماں کی رقیب وہ روشنی ہے وہ بیداریاں کہ سائے نہ خواب بس ایک ہوش بس اک آگہی بس اک احساس اور ان کے نور سے جلتے بدن پگھلتے بدن بدن ہیں کھولتے سیال آئینے ہر سو ہر آن بہتے سدا رہتیں بدلتے بدن دماغ دور سے ان کا نظارہ کرتا ہے اور ...

    مزید پڑھیے

    دوام

    مجھے آج محسوس یوں ہو رہا ہے کہ میں مر گیا ہوں مرا نام کچھ بھی ہو میں عام سا آدمی اس سے کچھ فرق پڑتا نہیں ایک احساس کے مختلف نام ہیں ساری دنیا میں جو شخص دنیا سے اٹھا ہے وہ میں ہوں میں جس نے دیکھا ہے ہر شخص میں خود کو مرتے ہوئے مجھ کو جس طرح چاہو پکارو کہ وہ مرنے والا تو میں ہی ...

    مزید پڑھیے

    شہر انا میں

    یہ تیز دھوپ یہ کاندھوں پہ جاگتا سورج زمیں بلند ہے اتنی کہ آسماں کی رقیب وہ روشنی ہے وہ بیداریاں کہ سائے نہ خواب بس ایک ہوش بس اک آگہی بس اک احساس اور ان کے نور سے جلتے بدن پگھلتے بدن بدن ہیں کھولتے سیال آئینے ہر سو ہر آن بہتے سدا ہیئتیں بدلتے بدن دماغ دور سے ان کا نظارہ کرتا ہے اور ...

    مزید پڑھیے

    تلاش

    رستہ یہ جانا پہچانا ہے کبھی کبھی یہ اپنا ہوتا تھا برسوں برس تک ان پتھ پر پیار ہمارا سنجوتا تھا سانجھ سویرے ان دیکھی برکھا سے نم رہتی تھی خاک شام کا غنچہ صبح کا سورج، شبنم سے منہ دھوتا تھا خاک سے تیرے بدن کی خوشبو ڈالی ڈالی اڑتی تھی دھیان کا بھونرا پھول کی بکھری پنکھڑیوں کو پروتا ...

    مزید پڑھیے

    سورج کا شہر

    ''نہیں یہ سورج کے شہر کا آدمی نہیں ہے کہ یہ تو مرنے کے بعد فٹ پاتھ پر پڑا ہے یہ لاش ہم سب کی طرح سورج کے ساتھ گردش میں کیوں نہیں ہے؟ پڑھو تو اس ڈائری میں کیا ہے؟'' نچے کھچے اک ورق پہ کچھ یوں لکھا ہوا تھا ''میں اپنی دنیائے فکر و فن تج کے آج بن باس میں پڑا ہوں ضرورتوں میں گھرا ہوا ...

    مزید پڑھیے