شاعر فتح پوری کی غزل

    جو کیف عشق سے خالی ہو زندگی کیا ہے

    جو کیف عشق سے خالی ہو زندگی کیا ہے شگفتگی نہ ملے جس میں وہ کلی کیا ہے مری نگاہ میں ہے ان کا عارض روشن یہ کہکشاں یہ ستارے یہ چاندنی کیا ہے جمال یار کی رعنائیوں میں گم ہے نظر مجھے یہ ہوش کہاں ہے کہ زندگی کیا ہے اٹھا بھی جام کہ دنیا ترے قدم چومے یہ مے کدہ ہے یہاں عیش کی کمی کیا ...

    مزید پڑھیے

    گل یاد نہ امواج نسیم سحری یاد

    گل یاد نہ امواج نسیم سحری یاد کچھ بھی نہیں جز عالم بے بال و پری یاد خورشید سحر عارض مہتاب کا عالم نظروں کو ابھی تک ہے تری جلوہ گری یاد سوئے حرم و دیر کبھی رخ نہ کریں گے جن کو مرے ساقی کی ہے رنگیں نظری یاد جلووں کا تقاضا نہیں کرتی نظر ان کی رہتی ہے جنہیں حسن کی دیوانہ گری یاد یہ ...

    مزید پڑھیے

    ساقی کی نگاہوں کا پیغام نہیں آتا

    ساقی کی نگاہوں کا پیغام نہیں آتا جس جام کا طالب ہوں وہ جام نہیں آتا مے خواروں کی لغزش پر دنیا کی نگاہیں ہیں نافہمیٔ واعظ پر الزام نہیں آتا اللہ رے مجبوری اللہ رے محرومی یا بارش صہبا تھی یا جام نہیں آتا بیتابیٔ دل راز تسکین محبت ہے اچھے ہیں وہی جن کو آرام نہیں آتا یا دل کے ...

    مزید پڑھیے

    نافہم کہوں میں اسے ایسا بھی نہیں ہے

    نافہم کہوں میں اسے ایسا بھی نہیں ہے کیا شے ہے محبت وہ سمجھتا بھی نہیں ہے مانا کہ بہت رابطۂ عشق ہے نازک ہم توڑ سکیں جس کو وہ رشتا بھی نہیں ہے ہر شے سے جدا ہے دل برباد کی فطرت جب تک نہ ہو برباد سنورتا بھی نہیں ہے امید ہے وابستہ مری ابر کرم سے اور ابر کرم ہے کہ برستا بھی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    راہ دشوار میں چلنا سیکھو

    راہ دشوار میں چلنا سیکھو رخ زمانے کا بدلنا سیکھو زندگی خود ہی سنور جائے گی غم کے سانچے میں تو ڈھلنا سیکھو مے پرستی کی ہے اس میں توہین پی لیا ہے تو سنبھلنا سیکھو تیرگی آپ ہی چھٹ جائے گی بن کے خورشید نکلنا سیکھو دل کو پتھر نہ بناؤ اپنے موم کی طرح پگھلنا سیکھو ہو کے سرگرم عمل اے ...

    مزید پڑھیے

    زباں خموش رہے ترک مدعا نہ کرے

    زباں خموش رہے ترک مدعا نہ کرے یہ التجا بھی نہیں کم کہ التجا نہ کرے میں ننگ عشق سمجھتا ہوں زندگی کے لئے وہ دل جو گردش دوراں کا سامنا نہ کرے دلا رہی ہے یقین وفا مجھے وہ نظر یہ بات اور ہے ہر ایک سے وفا نہ کرے اسے بہار کی رنگینیاں نصیب نہ ہوں چمن میں رہ کے چمن کا جو حق ادا نہ ...

    مزید پڑھیے

    مزہ شباب کا جب ہے کہ با خدا بھی رہے

    مزہ شباب کا جب ہے کہ با خدا بھی رہے بتوں کے ساتھ رہے اور پارسا بھی رہے مذاق حسن پرستی قبول ہے مجھ کو اگر نگاہ حقیقت سے آشنا بھی رہے نظام دہر جدا کر رہا ہے دونوں کو میں چاہتا ہوں کلی بھی رہے صبا بھی رہے کہاں سے جان بچے جب وہ شوخ سحر نگاہ جفا شعار بھی ہو مائل وفا بھی رہے مجھے ملا ...

    مزید پڑھیے

    دم تعمیر تخریب جہاں کچھ اور کہتی ہے

    دم تعمیر تخریب جہاں کچھ اور کہتی ہے کلی کچھ اور کہتی ہے خزاں کچھ اور کہتی ہے کدہ کی یاد سب کچھ ہے مگر اے زاہد ناداں دلوں سے مستئ چشم بتاں کچھ اور کہتی ہے کبھی شاید وہ دور آئے جب انساں ہو سکے انساں ابھی تو گردش ہفت آسماں کچھ اور کہتی ہے بنا کر آشیانے فصل گل میں شاد ہیں لیکن چمن ...

    مزید پڑھیے

    فسانۂ ستم کائنات کہتے ہیں

    فسانۂ ستم کائنات کہتے ہیں یہ اشک غم تو مرے دل کی بات کہتے ہیں وہی نگاہ کہ جس سے جہاں لرزتا ہے ہم اس نگاہ کو راز حیات کہتے ہیں طلوع مہر مبیں تک نظر نہیں جاتی جو بے خبر ہیں وہ دن کو بھی رات کہتے ہیں گل و بہار کا انجام ہے جنہیں معلوم چمن کو دام گہہ حادثات کہتے ہیں ہم اہل عشق ہیں ...

    مزید پڑھیے

    سر تسلیم خم کرنا پڑا تقصیر سے پہلے

    سر تسلیم خم کرنا پڑا تقصیر سے پہلے محبت کی سزا مجھ کو ملی تعزیر سے پہلے برا ہوگا ہماری راہ میں آیا اگر کوئی کہ ہم شمشیر بن جائیں گے خود شمشیر سے پہلے محبت کی نظر اک اک نفس پر کام کرتی ہے تجھے ہم دیکھ لیتے ہیں تری تصویر سے پہلے محبت کا زمانہ بھی عجب دل کش زمانہ تھا اسیری میری ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2