سر تسلیم خم کرنا پڑا تقصیر سے پہلے
سر تسلیم خم کرنا پڑا تقصیر سے پہلے
محبت کی سزا مجھ کو ملی تعزیر سے پہلے
برا ہوگا ہماری راہ میں آیا اگر کوئی
کہ ہم شمشیر بن جائیں گے خود شمشیر سے پہلے
محبت کی نظر اک اک نفس پر کام کرتی ہے
تجھے ہم دیکھ لیتے ہیں تری تصویر سے پہلے
محبت کا زمانہ بھی عجب دل کش زمانہ تھا
اسیری میری ثابت ہو گئی زنجیر سے پہلے
ہمارے نامۂ پر شوق لکھنے پر یہ پابندی
قلم کی جائیں گی کیا انگلیاں تحریر سے پہلے
محبت کی امانت یوں ہی انساں نے نہیں پائی
کیا ہے غور خود قدرت نے بھی تقدیر سے پہلے
کوئی ایسے میں بیداری کا دے پیغام اے شاعرؔ
زمانہ ہوش میں آتا نہیں تقریر سے پہلے