زباں خموش رہے ترک مدعا نہ کرے
زباں خموش رہے ترک مدعا نہ کرے
یہ التجا بھی نہیں کم کہ التجا نہ کرے
میں ننگ عشق سمجھتا ہوں زندگی کے لئے
وہ دل جو گردش دوراں کا سامنا نہ کرے
دلا رہی ہے یقین وفا مجھے وہ نظر
یہ بات اور ہے ہر ایک سے وفا نہ کرے
اسے بہار کی رنگینیاں نصیب نہ ہوں
چمن میں رہ کے چمن کا جو حق ادا نہ کرے
کبھی کبھی یہ بنائے کرم بھی ہوتی ہے
جفائے یار سے اندازۂ جفا نہ کرے
مصیبتوں سے نکھرتا ہے عشق اے شاعرؔ
دعا کو ہاتھ بھی اٹھ جائیں تو دعا نہ کرے