شاعر فتح پوری کی غزل

    اتنے چپ کیوں ہو ماجرا کیا ہے

    اتنے چپ کیوں ہو ماجرا کیا ہے آج شاعرؔ تمہیں ہوا کیا ہے واقعہ یہ ہے تھے اسی قابل ہم جو رسوا ہوئے برا کیا ہے حاصل کائنات ہے اس میں میرے ساغر کو دیکھتا کیا ہے دل کی باتیں سنو نگاہوں سے یہ نہ پوچھو کہ مدعا کیا ہے تیری اک اک ادا نے لوٹ لیا ہے وفائی ہے کیا وفا کیا ہے سامنے اپنے آئنہ ...

    مزید پڑھیے

    وہ بے وفا ہی سہی اس کو بے وفا نہ کہو

    وہ بے وفا ہی سہی اس کو بے وفا نہ کہو ادب کی حد میں رہو حسن کو برا نہ کہو شراب عشق کی عظمت سے جو کرے انکار وہ پارسا بھی اگر ہو تو پارسا نہ کہو پڑا ہے کام اسی خود پرست کافر سے جسے یہ ضد ہے کسی اور کو خدا نہ کہو مرا خلوص محبت ہے قدر کے قابل زباں پہ ذکر وفا ہے اسے گلا نہ کہو یہ کیا کہا ...

    مزید پڑھیے

    وسعت کون و مکاں میں وہ سماتے بھی نہیں

    وسعت کون و مکاں میں وہ سماتے بھی نہیں جلوہ افروز بھی ہیں سامنے آتے بھی نہیں پارسائی کا ہماری نہیں دنیا میں جواب وقت آ جائے تو دامن کو بچاتے بھی نہیں ہم وہ میکش ہیں کی ساقی کی نظر پھرتے ہی جام کی سمت نگاہوں کو اٹھاتے بھی نہیں خود ہی رنگ رخ محبوب اڑا جاتا ہے ہم تو روداد غم عشق ...

    مزید پڑھیے

    غم ہے کانٹوں کا نہ اندیشہ بیابانوں کا

    غم ہے کانٹوں کا نہ اندیشہ بیابانوں کا عشق ہے راہنما آج بھی دیوانوں کا روح تاریک نظر کور محبت سے گریز کیا فرشتوں میں ہے شہرا انہیں انسانوں کا لفظ جذبات کی تصویر نہیں بن سکتے شکر کیسے ہو ادا حسن کے احسانوں کا دل برباد سے کرتے ہیں جسے ہم تعبیر اسی ویرانے میں اک شہر تھا ارمانوں ...

    مزید پڑھیے

    گل خوش نما کے لباس میں کہ شعاع نور میں ڈھل کے آ

    گل خوش نما کے لباس میں کہ شعاع نور میں ڈھل کے آ تجھے ڈھونڈھ لے گی مری نظر تو ہزار رنگ بدل کے آ ترے دل کی آگ حقیقتاً ترے حق میں فصل بہار ہے جو بجھائے سے بھی نہ بجھ سکے اسی دل کی آگ میں جل کے آ تری جستجو بھی حجاب ہے تری آرزو بھی حجاب ہے کبھی دام عقل و شعور سے جو نکل سکے تو نکل کے آ یہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2