شبنم نقوی کے تمام مواد

23 غزل (Ghazal)

    انسانیت کو درد کا درماں کہے گا کون

    انسانیت کو درد کا درماں کہے گا کون اب آدمی کو حضرت انساں کہے گا کون سب کچھ وہی ہے آج بھی چہرے بدل گئے شام خزاں کو صبح بہاراں کہے گا کون اب زندگی کے معنی و مطلب بدل گئے اب زندگی کو خواب پریشاں کہے گا کون یوں ہے کمال عظمت آدم لہو لہو اب داستان عظمت انساں کہے گا کون ہیں ہر قدم پہ ...

    مزید پڑھیے

    کوئی منزل نہ راستا ہے آج

    کوئی منزل نہ راستا ہے آج لمحہ لمحہ بھٹک رہا ہے آج زندگی کی عجب ادا ہے آج زندگی خود سے بھی خفا ہے آج فاصلے اب کہاں ہیں دنیا میں صرف اپنوں میں فاصلا ہے آج دور اندیش کس قدر ہے وہ غم فردا بھی دیکھتا ہے آج صرف انساں کا لفظ زندہ ہے ورنہ انسان مر گیا ہے آج اب اسی کو خلوص کہتے ہیں پاس ...

    مزید پڑھیے

    نظر سے دور ہے دل سے قریب تر ہے کوئی

    نظر سے دور ہے دل سے قریب تر ہے کوئی تو پھر یہ کیسے کہوں مجھ سے بے خبر ہے کوئی یہ عہد کیسے کروں تجھ کو بھول جاؤں گا کہاں یقین دل بے قرار پر ہے کوئی بہت حسین شب انتظار ہے لیکن تمہی بتاؤ کہ اس رات کی سحر ہے کوئی ترے تصور رنگیں میں یوں نظر گم ہے میں اب وہاں ہوں کسے فرصت نظر ہے ...

    مزید پڑھیے

    پیکر حسن جب اڑان میں تھا

    پیکر حسن جب اڑان میں تھا رنگ ہی رنگ آسمان میں تھا تجھ کو دیکھا مگر کہاں دیکھا ایک احساس درمیان میں تھا زندگی کتنی خوب صورت تھی آرزؤں کے سائبان میں تھا ایک جنس وفا نہ تھی ورنہ کیا نہیں حسن کی دکان میں تھا زندگی تیری چاہتوں کی قسم ہر قدم میں ہی امتحان میں تھا سب نے اپنی ہی ...

    مزید پڑھیے

    یہ دھڑکنوں کا ترنم فریب ہی تو نہیں

    یہ دھڑکنوں کا ترنم فریب ہی تو نہیں کسی نے دور سے آواز مجھ کو دی تو نہیں ترے بغیر بھی کٹ جائے گی حیات مگر یہ خود فریبئ احساس زندگی تو نہیں ہزار تیرہ و تاریک راہ منزل ہے کبھی نہ ختم ہو یہ ایسی تیرگی تو نہیں اسی میں سارے گلستاں کی آگ شامل ہے یہ صرف میرے نشیمن کی روشنی تو نہیں بہت ...

    مزید پڑھیے

تمام