Sayeda Sadaf Akbar

سیدہ صدف اکبر

سیدہ صدف اکبر کی نظم

    کبھی کبھی

    اپنا آپ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے دور ساحل پر بیٹھی ایک تنہا لڑکی جو اپنے تمام خوابوں کو پیارے پیارے سندر سندر جذبوں کو اپنی مٹھی میں قید کر لینا چاہتی ہو مگر پھر جب اس کے بند ہاتھوں سے ریت دھیرے دھیرے سے سمندر کی طرف واپس لوٹ جاتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اس کے سارے ...

    مزید پڑھیے

    صنف نازک کہا گیا مجھ کو

    رنگ کائنات کہا گیا مجھ کو آنکھوں میں بسے خوابوں سے پھر مبرا کیا گیا مجھ کو زندگی بھر کی جو کمائی تھی کچھ جو عزت کہیں بنائی تھی چند لفظوں سے کچھ حقارت سے تہی دامن کیا گیا مجھ کو کاری کر کے سب زمانے میں کھلے سر برہنہ کیا گیا مجھ کو حسن زن سے جو زندگی ہے حسین رنگوں سے کھلی دل کشی ہے ...

    مزید پڑھیے

    تم مجھے یاد آؤگی

    بچھڑتے وقت اس نے کہا تھا سنو تم مجھے یاد آؤگی جب کبھی ساحل سمندر پر ننگے پاؤں چلتے ہوئے سمندر کی آغوش میں ڈوبتے سورج کے منظر کا پیلا پن آنکھوں میں اترے گا تم مجھے یاد آؤگی جب کبھی برساتوں کی اندھیری راتوں میں دل کے کسی گوشے میں اک ہلکی سی آہٹ پا کر یادیں گہری نیند سے جاگیں گی تم ...

    مزید پڑھیے

    اے میرے ارض وطن

    اے میرے پاک وطن دیکھے تھے کئی خواب تمہاری خاطر سینچے تھے کئی گلاب تمہاری خاطر تیری مٹی کی خوشبو کی قسم کھائی تھی تب کہیں جا کے گل لالہ مسکرائی تھی اے میرے ارض وطن اے میرے خوشبو کے چمن مٹی کو تیری رنگا تھا لہوں سے اپنے اقبالؔ نے چاہا تجھے فکر سے اپنے قوم مسلم کا بس تو ہی اک ٹھکانہ ...

    مزید پڑھیے

    میرے ہاتھوں کی لکیریں

    قسمت کی ریکھائیں نہیں ان لمحوں کے جگنوں ہیں جو تمہارے سنگ گزارے ہیں شب تنہائی میں جب کبھی نیند رستہ بھول جاتی ہے ان جگنوؤں سے ہی خواب اپنی منزل پاتے ہیں

    مزید پڑھیے