صنف نازک کہا گیا مجھ کو

رنگ کائنات کہا گیا مجھ کو
آنکھوں میں بسے خوابوں سے
پھر مبرا کیا گیا مجھ کو
زندگی بھر کی جو کمائی تھی
کچھ جو عزت کہیں بنائی تھی
چند لفظوں سے کچھ حقارت سے
تہی دامن کیا گیا مجھ کو
کاری کر کے سب زمانے میں
کھلے سر برہنہ کیا گیا مجھ کو
حسن زن سے جو زندگی ہے حسین
رنگوں سے کھلی دل کشی ہے یہی
صنف نازک کی نازکی ہے یہی
اس کے خوابوں کو تعبیریں جو ملیں
زندگی کے سب زاویوں سے پرے
رنگ گل یوں ہی بکھر جائیں گے
دکھ سب سکھ میں بدل جائیں گے
کاری نہ مرے گی کوئی بھی ناری
زیست رہے گی نہ اس پہ بھاری
صنف نازک سمجھ کر نہ مارو مجھ کو
رنگ گل ہوں میں اس گلستاں کی
خوابوں کی آنکھوں میں میں بھی بستی ہوں
زمین کی گود سے میرا بھی رشتہ ہے
خوشبو بن کر ہم نے یوں بکھرنا ہے
مانند سحر خود میں یوں ابھرنا ہے
رنگ کائنات بن کر ہر زمانے میں
خود ہی اپنی مثال بننا ہے