Saurabh Shekhar

سوربھ شیکھر

سوربھ شیکھر کی غزل

    یقین مر گیا مرا گمان بھی نہیں بچا

    یقین مر گیا مرا گمان بھی نہیں بچا کہیں کسی خیال کا نشان بھی نہیں بچا خموشیاں تمام غرق ہو گئیں خلاؤں میں وہ زلزلہ تھا صاحبو بیان بھی نہیں بچا ندی کے سر پہ جیسے انتقام سا سوار تھا کہ باندھ فصل پل بہے مکان بھی نہیں بچا ہجوم سے نکل کے بچ گیا ادھر وہ آدمی ادھر ہجوم کے میں درمیان بھی ...

    مزید پڑھیے

    تنہائی کا علاج یہ مہنگا بہت پڑا

    تنہائی کا علاج یہ مہنگا بہت پڑا اکتا کے میں نے نیوز کا چینل لگایا تھا بس یہ کہ وجہ ترک تعلق ہی کچھ رہے اس نے ذرا سی بات پہ جھگڑا کھڑا کیا بگڑیل ہو چلے تھے کئی دن سے میرے خواب سچ کی چھڑی سے شام انہیں سیدھا کر دیا کھولا تھا رات ماضی کا ایک البم کہ اف یادوں کا میرے ذہن میں تانتا ...

    مزید پڑھیے

    ایک روزن کے ابھی کردار میں ہوں میں

    ایک روزن کے ابھی کردار میں ہوں میں غور سے دیکھو اسی دیوار میں ہوں میں سب مناظر زرد سے پڑنے لگے ہیں یا بے یقینی کے اسی آزار میں ہوں میں ٹوٹ جائے آسماں دھرتی بھی پھٹ جائے کیا مجھے پروا کہ بزم یار میں ہوں میں ذہن میں اولاد ہے اور گھر کی جانب ہوں رک نہیں سکتا ابھی رفتار میں ہوں ...

    مزید پڑھیے

    سیاہ رات کے دریا کو پار کرتے چلو

    سیاہ رات کے دریا کو پار کرتے چلو بس ایک دوسرے کو ہوشیار کرتے چلو افق کے نور سے گر مطمئن نہ ہو پاؤ نسیم صبح کا تو اعتبار کرتے چلو بٹور لاؤ ذرا خود کو چار سمتوں سے صفیں بنا کے بڑھو اب قطار کرتے چلو قیام طائرو کچھ دیر میرے آنگن میں تمام گھر کو مرے خوش گوار کرتے چلو تمہاری بات سے ...

    مزید پڑھیے

    ویرانیوں کے خار تو پھولوں کی چھون بھی

    ویرانیوں کے خار تو پھولوں کی چھون بھی اس راہ میں آئے ہیں بیاباں بھی چمن بھی کھلنا تھا فقط ایک دریچہ مرے گھر کا پھر روشنی بھی آئی، ہوئی دور گھٹن بھی بچے نے سجائی ہے کوئی اور ہی دنیا کھینچا ہے جہاں باگھ وہیں رکھا ہے ہرن بھی یاد اپنے وطن کی مجھے آتی نہیں اب تو اب بھول چکا ہوگا ...

    مزید پڑھیے

    پانی میں کنکر برسایا کرتے تھے

    پانی میں کنکر برسایا کرتے تھے وہ دن جب ہم لمحے ضائع کرتے تھے ہوڑ ہوا سے اکثر لگتی تھی اپنی اکثر اس کو دھول چٹایا کرتے تھے دیکھ کے ہم کو راہ گزر مسکاتی تھی پیڑ بھی آگے بڑھ کر چھایا کرتے تھے دھوپ بٹورا کرتے تھے ہم سارا دن شام کو بانٹ کے گھر لے جایا کرتے تھے آج گھٹا افسردہ کرتی ہے ...

    مزید پڑھیے

    حرص و ہوس کے نام یہ دن رات کی طلب

    حرص و ہوس کے نام یہ دن رات کی طلب امداد کی امید مفادات کی طلب وہ سانحے کہ سوچ بدلنی پڑی مجھے پیدائشی نہیں تھی خیالات کی طلب میں بھی کسی مسیحا کے ہوں انتظار میں تم کو بھی غالباً ہے کرامات کی طلب خبروں میں ایک لطف کا پہلو تو ہے مگر اچھی نہیں ہے اتنی بھی حالات کی طلب کیسا عجیب روگ ...

    مزید پڑھیے

    گھر کے باہر بھی تو جھانکا جا سکتا ہے

    گھر کے باہر بھی تو جھانکا جا سکتا ہے اور کسی کا رستہ دیکھا جا سکتا ہے رات گزاری جا سکتی ہے تارے گن کر دن میں چادر تان کے سویا جا سکتا ہے شکوے دور کیے جا سکتے ہیں یاروں سے اس سنڈے کو فون گھمایا جا سکتا ہے اس کے جیسا ہی اب کچھ حاصل ہے مجھ کو اب اس کی خواہش کو چھوڑا جا سکتا ہے ویسے ...

    مزید پڑھیے

    خرابے میں بوچھار ہو کر رہے گی

    خرابے میں بوچھار ہو کر رہے گی گلی دل کی گلزار ہو کر رہے گی حکومت غموں کی نہیں چلنے والی مسرت کی یلغار ہو کر رہے گی کہ شاخوں پہ پھولوں کے گچھے تو دیکھو یہ بغیا ثمر دار ہو کر رہے گی بھرے جائیں گے غار پربت گرا کر یہ دھرتی تو ہموار ہو کر رہے گی لکیریں فقط کھینچتا جا ورق پر کوئی شکل ...

    مزید پڑھیے

    آساں تو نہ تھا دھوپ میں صحرا کا سفر کچھ

    آساں تو نہ تھا دھوپ میں صحرا کا سفر کچھ با فیض مگر ملتے رہے مجھ کو شجر کچھ پرسش نہ کرو مجھ سے مرا حال نہ پوچھو اکھڑا سا ذرا رہتا ہے جی میرا ادھر کچھ سیلاب نہ ہو تو نہ ہو دل میں بھی تلاطم پانی تو رہے ڈوب کے مرنے کو مگر کچھ اتنا ہی غنی ہے جو سمندر تو کہو وہ ساحل پہ بہا لائے کبھی لعل ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2