ویرانیوں کے خار تو پھولوں کی چھون بھی

ویرانیوں کے خار تو پھولوں کی چھون بھی
اس راہ میں آئے ہیں بیاباں بھی چمن بھی


کھلنا تھا فقط ایک دریچہ مرے گھر کا
پھر روشنی بھی آئی، ہوئی دور گھٹن بھی


بچے نے سجائی ہے کوئی اور ہی دنیا
کھینچا ہے جہاں باگھ وہیں رکھا ہے ہرن بھی


یاد اپنے وطن کی مجھے آتی نہیں اب تو
اب بھول چکا ہوگا مجھے میرا وطن بھی


حساس بنا ڈالا مجھے حد سے زیادہ
اور اس پہ محبت نے دیا شعر کا فن بھی


کس کھوج میں تھے شہر کے سب لوگ نہ جانے
چہروں پہ اداسی بھی ہے آنکھوں میں تھکن بھی


آسان نہیں ہے یہ سفر روح کا سوربھؔ
حائل ہے تری راہ میں اک دشت بدن بھی