Saqib Lakhnavi

ثاقب لکھنوی

ممتاز مابعد کلاسیکی شاعر ، اپنے شعر ’بڑے غورسے سن رہا تھا زمانہ ۔۔۔۔۔۔‘ کے لئے مشہور

Prominent later –classical poet / known for his couplet - ‘Bade ghaur se sun raha tha zamana….

ثاقب لکھنوی کی غزل

    ایک مقتول جفا دو ظلم کے قابل نہ تھا

    ایک مقتول جفا دو ظلم کے قابل نہ تھا ورنہ دل کا مارنا آسان تھا مشکل نہ تھا شوق آزادی میں تڑپوں اس پہ راضی دل نہ تھا ورنہ بیتابی سلامت چھوٹنا مشکل نہ تھا حشر میں وہ سر جھکائے ہیں میں شکوہ کیا کروں جانے والی جان تھی میرا کوئی قاتل نہ تھا اب سلیمانی کسے کہتے ہیں بتلا دے مجھے ایک ...

    مزید پڑھیے

    میں رو رہا ہوں جو دل کو تو بیکسی کے لئے

    میں رو رہا ہوں جو دل کو تو بیکسی کے لئے وگر نہ موت تو دنیا میں ہے سبھی کے لئے شب فراق کی روزانہ آفتیں توبہ یہ امتحان تو ہوتا کبھی کبھی کے لئے بہت سی عمر مٹا کر جسے بنایا تھا مکاں وہ جل گیا تھوڑی سی روشنی کے لئے وسیع بزم جہاں ہے تو ہو مجھے کیا کام جگہ ملی نہ مری حسرت دلی کے لئے یہ ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ پڑتے ہی نہ تھا نام شکیبائی کا

    آنکھ پڑتے ہی نہ تھا نام شکیبائی کا در مے خانہ تھا نقشہ تری انگڑائی کا ماسوا اس کے نہیں جس کا کوئی اور شریک کون بتلائے گا عالم مری تنہائی کا پاک دامانیٔ یوسف تھی زلیخا کی سزا راستہ چاک سے پیدا ہوا رسوائی کا سختیاں ہمت دل ہو تو بدل جاتی ہیں موت اک کھیل ہے لیکن ترے شیدائی کا ہم ...

    مزید پڑھیے

    میں نہیں کہتا کہ دنیا کو بدل کر راہ چل

    میں نہیں کہتا کہ دنیا کو بدل کر راہ چل خار ہیں پیراہن گل میں سنبھل کر راہ چل دور ہے ملک عدم اور تجھ میں دم باقی نہیں ہو سکے تو بس یوں ہی کروٹ بدل کر راہ چل طالب منزل ہے پھر عزلت نشینی کس لیے رہروؤں کو دیکھ لے گھر سے نکل کر راہ چل کوئے جاناں میں زمانہ ہو گیا روتے ہوئے تا کجا دل کا ...

    مزید پڑھیے

    رو رہا تھا میں بھری برسات تھی

    رو رہا تھا میں بھری برسات تھی حال کیا کھلتا اندھیری رات تھی میرے نالوں سے ہے برہم باغباں یہ خفا ہونے کی کوئی بات تھی دن نہیں دیکھا سوائے شام ہجر زندگی بھر میں یہی اک رات تھی نالہ و آہ و فغاں سے بڑھ گئی ورنہ الفت اک ذرا سی بات تھی حشر تک لایا جہاں سے درد دل کس کو دیتا کیا کوئی ...

    مزید پڑھیے

    ان کی آرائش سے میرے کام بن جائیں گے کیا

    ان کی آرائش سے میرے کام بن جائیں گے کیا دل کی گتھی شانہ ہائے زلف سلجھائیں گے کیا وصل کے وعدے سے خوش ہو کر نہ مر جائیں گے کیا نامہ بر ہنستا ہوا آتا ہے خود آئیں گے کیا قیدیٔ غم تربتوں میں اور ان کو یہ خیال کاٹنے میں اک شب فرقت کے مر جائیں گے کیا کام اپنا کر چکے اہل وفا شک ہے تو ہو سر ...

    مزید پڑھیے

    پردہ رہا کہ جلوۂ وحدت نما ہوا

    پردہ رہا کہ جلوۂ وحدت نما ہوا غش نے خبر نہ دی مجھے کب سامنا ہوا دشمن کی دوستی کا نتیجہ برا ہوا خنجر گلے ملا تو مرا سر جدا ہوا محشر میں رنگ چہرۂ ظالم ہوا ہوا سچ ہے برا ہوا کہ مرا سامنا ہوا گلشن سے اٹھ کے میرا مکاں دل میں آ گیا اک داغ بن گیا ہے نشیمن جلا ہوا کیا تیرگی لئے ہوئے آئی ...

    مزید پڑھیے

    اسیر عشق مرض ہیں تو کیا دوا کرتے

    اسیر عشق مرض ہیں تو کیا دوا کرتے جو انتہا کو پہنچتے تو ابتدا کرتے اگر زمانے میں اپنے کبھی وفا کرتے دہان زخم تڑپنے پہ کیوں ہنسا کرتے مریض لذت فریاد کہہ نہیں سکتے جو نالے کام نہ آتے تو چپ رہا کرتے ہم ان سے مل کے بھی فرقت کا حال کہہ نہ سکے مزہ وصال کا کھوتے اگر گلہ کرتے مذاق درد ...

    مزید پڑھیے

    نہ آسمان ہے ساکت نہ دل ٹھہرتا ہے

    نہ آسمان ہے ساکت نہ دل ٹھہرتا ہے زمانہ نام گزرنے کا ہے گزرتا ہے وہ میری جان کا دشمن سہی مگر صیاد مری کہی ہوئی باتوں پہ کان دھرتا ہے ہمیں ہیں وہ جو امید فنا پہ جیتے ہیں زمانہ زندگیٔ بے بقا پہ مرتا ہے ابھی ابھی در زنداں پہ کون کہتا تھا ادھر سے ہٹ کے چلو کوئی نالے کرتا ہے وہی سکوت ...

    مزید پڑھیے

    کون ان لاکھوں اداؤں میں مجھے پیاری نہیں

    کون ان لاکھوں اداؤں میں مجھے پیاری نہیں نام لوں کس کس کا مجھ کو ایک بیماری نہیں آگ کتنی لے کے نکلا تھا مرا دود جگر وہ فضا ہے کون جس میں کوئی چنگاری نہیں یاس سے کیوں دیکھتے ہیں دوست اے آزار دل پوچھتے ہیں کیا مجھے تو کوئی بیماری نہیں ہاتھ رکھ کر اک ذرا دیکھو تپ غم کا اثر یہ تمہارا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 5