نہ آسمان ہے ساکت نہ دل ٹھہرتا ہے
نہ آسمان ہے ساکت نہ دل ٹھہرتا ہے
زمانہ نام گزرنے کا ہے گزرتا ہے
وہ میری جان کا دشمن سہی مگر صیاد
مری کہی ہوئی باتوں پہ کان دھرتا ہے
ہمیں ہیں وہ جو امید فنا پہ جیتے ہیں
زمانہ زندگیٔ بے بقا پہ مرتا ہے
ابھی ابھی در زنداں پہ کون کہتا تھا
ادھر سے ہٹ کے چلو کوئی نالے کرتا ہے
وہی سکوت سے اک عمر کاٹنے والا
جو سننے والا ہو کوئی تو کہہ گزرتا ہے
حریف بزم میں چھیڑا کریں مگر ثاقبؔ
وہ دل جو بیٹھ گیا ہو کہیں ابھرتا ہے