Saqib Lakhnavi

ثاقب لکھنوی

ممتاز مابعد کلاسیکی شاعر ، اپنے شعر ’بڑے غورسے سن رہا تھا زمانہ ۔۔۔۔۔۔‘ کے لئے مشہور

Prominent later –classical poet / known for his couplet - ‘Bade ghaur se sun raha tha zamana….

ثاقب لکھنوی کی غزل

    مرا دل داد خواہ ظلم اصلاً ہو نہیں سکتا

    مرا دل داد خواہ ظلم اصلاً ہو نہیں سکتا مروت منہ کو سی دیتی ہے شکوا ہو نہیں سکتا چھپاؤ آپ کو جس رنگ یا جس بھیس میں چاہو مگر چشم حقیقت بیں سے پردا ہو نہیں سکتا تماشا گاہ حیرت ہے دیار دل کی ویرانی یہ سناٹا میان دشت و صحرا ہو نہیں سکتا بڑھا ایک اور غم افشائے راز عشق سے ورنہ نہ میں ...

    مزید پڑھیے

    کہاں تک جفا حسن والوں کی سہتے

    کہاں تک جفا حسن والوں کی سہتے جوانی جو رہتی تو پھر ہم نہ رہتے لہو تھا تمنا کا آنسو نہیں تھے بہائے نہ جاتے تو ہرگز نہ بہتے وفا بھی نہ ہوتا تو اچھا تھا وعدہ گھڑی دو گھڑی تو کبھی شاد رہتے ہجوم تمنا سے گھٹتے تھے دل میں جو میں روکتا بھی تو نالے نہ رہتے میں جاگوں گا کب تک وہ سوئیں گے ...

    مزید پڑھیے

    یہ آہ و فغاں کیوں ہے دل زار کے آگے

    یہ آہ و فغاں کیوں ہے دل زار کے آگے کہتے ہیں کہ روتے نہیں بیمار کے آگے پھر موت کا ہے سامنا اللہ بچائے پھر دل لیے جاتا ہے ستم گر کے آگے بکنے کے لیے آپ نہ بازار میں آئے بھجوا دیا یوسف کو خریدار کے آگے منعم کو مبارک یہ نقیب اور جلو دار اللہ ہی اللہ ہے نادار کے آگے ضد کرتے ہو کیوں تیر ...

    مزید پڑھیے

    ہٹے یہ آئنہ محفل سے اور تو آئے

    ہٹے یہ آئنہ محفل سے اور تو آئے کوئی تو ہو جو کبھی دل کے روبرو آئے مرے لہو سے اگر ہو کے سرخ رو آئے ملو تو برگ حنا میں وفا کی بو آئے وہ آنسوؤں کی صفائی سے بد گماں ہیں عبث دل و جگر میں رہا کیا ہے جو لہو آئے شب وصال بھی تا صبح مطمئن نہ رہا ابھی تھی رات کہ پیغام آرزو آئے بیان برق تجلی ...

    مزید پڑھیے

    رخ و زلف کا ہوں فسانہ خواں یہی مشغلہ یہی کام ہے

    رخ و زلف کا ہوں فسانہ خواں یہی مشغلہ یہی کام ہے مجھے دن کا چین عذاب جاں مجھے شب کی نیند حرام ہے ترے انتظار میں ہے تعب یہ مریض ہجر ہے جاں بہ لب کہیں آ بھی وعدہ خلاف اب کہ یہاں تو کام تمام ہے کہوں حسرتوں کا ہجوم کیا در دل تک آ کے وہ بے وفا مجھے یہ سنا کے پلٹ گیا کہ یہاں تو مجمع عام ...

    مزید پڑھیے

    ایک ایک گھڑی اس کی قیامت کی گھڑی ہے

    ایک ایک گھڑی اس کی قیامت کی گھڑی ہے جو ہجر میں تڑپائے وہی رات بڑی ہے یہ ضعف کا عالم ہے کہ تقدیر کا لکھا بستر پہ ہوں میں یا کوئی تصویر پڑی ہے بیتابیٔ دل کا ہے وہ دلچسپ تماشا جب دیکھو شب ہجر مرے در پہ کھڑی ہے دیکھا تو زمانہ گلۂ ہجر سے کم تھا سمجھا تھا کہ فرقت سے شب وصل بڑی ہے رونے ...

    مزید پڑھیے

    سوائے رحمت رب کچھ نہیں ہے

    سوائے رحمت رب کچھ نہیں ہے بہت کچھ تھا مگر اب کچھ نہیں ہے جہاں میں ہوں مگر کیا جانئے کیوں مجھے دنیا سے مطلب کچھ نہیں ہے یہ وقت نزع ہے کیا نذر دوں میں اب آئے ہو یہاں جب کچھ نہیں ہے اندھیرے میں وہ سوجھی یہ نہ سوجھی تری شب ہے مری شب کچھ نہیں ہے فقط تقدیر کی کایا پلٹ ہے مناسب اور ...

    مزید پڑھیے

    بلا ہی عشق لیکن ہر بشر قابل نہیں ہوتا

    بلا ہی عشق لیکن ہر بشر قابل نہیں ہوتا بہت پہلو ہیں ایسے بھی کہ جن میں دل نہیں ہوتا نشان بے نشانی مٹ نہیں سکتا قیامت تک یہ نقش حق جفائے دہر سے باطل نہیں ہوتا جہاں میں ناامیدی کے سوا امید کیا معنی سبھی کہتے ہیں لیکن دل مرا قائل نہیں ہوتا تڑپنا کس کا دیکھو گے جو زندہ ہوں تو سب کچھ ...

    مزید پڑھیے

    وصل کی امید بڑھتے بڑھتے تھک کر رہ گئی

    وصل کی امید بڑھتے بڑھتے تھک کر رہ گئی صبح کاذب اور کیا کرتی چمک کر رہ گئی دل شب غم کاٹ لایا دم ہوا لیکن ہوا اک کلی تھی جو سحر ہوتے مہک کر رہ گئی نا شناس روئے خوش حالی ہے طبع غم نصیب جب مسرت سامنے آئی جھجک کر رہ گئی مجھ کو جلنے دے ابھی اے موت کیوں دنیا کہے آگ کیسی تھی جو سینے میں ...

    مزید پڑھیے

    بس اے فلک نشاط دل کا انتقام ہو چکا

    بس اے فلک نشاط دل کا انتقام ہو چکا ہنسا تھا جس قدر کبھی زیادہ اس سے رو چکا نہ ذکر انبساط کر کہ دور عیش ہو چکا خوشی کی فکر کس لیے وہ دل کہاں جو کھو چکا یہ خندۂ طرب نما مبارک اہل دہر کو بہت زمانہ ہو گیا کہ میں ہنسی کو رو چکا وفا جو زندگی میں تھی وہی ہے بعد مرگ بھی یہ امتحان رہ گیا وہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 5