Saqib Lakhnavi

ثاقب لکھنوی

ممتاز مابعد کلاسیکی شاعر ، اپنے شعر ’بڑے غورسے سن رہا تھا زمانہ ۔۔۔۔۔۔‘ کے لئے مشہور

Prominent later –classical poet / known for his couplet - ‘Bade ghaur se sun raha tha zamana….

ثاقب لکھنوی کے تمام مواد

44 غزل (Ghazal)

    کٹ گیا رشتۂ الفت جو ترا نام آیا

    کٹ گیا رشتۂ الفت جو ترا نام آیا دل وفادار تھا لیکن نہ مرے کام آیا عشق کے ہاتھوں چراغ ایک سر شام آیا تیرہ بختی میں مرا دل ہی مرے کام آیا طلب ملک عدم سے نہ جہاں دیکھ سکا ابھی منزل پہ نہ اترا تھا کہ پیغام آیا نازش دہر نہ تھا میں تو پس مردن کیوں محفل غیر میں سو بار مرا نام آیا شمع ...

    مزید پڑھیے

    عبرت دہر ہو گیا جب سے چھپا مزار میں

    عبرت دہر ہو گیا جب سے چھپا مزار میں خیر جگہ تو مل گئی دیدۂ اعتبار میں توڑ رہا ہے باغباں پنکھڑیاں بہار میں کوئی تو ہو فدائے گل ایک نہیں مزار میں محو ہوں یاد چہرۂ شاہد گل عذار میں اب یہ خزاں نصیب دل جا کے ملا بہار میں اوج نہاد طبع کی مٹ کے بھی شان رہ گئی مر کے میں سوئے آسماں مل کے ...

    مزید پڑھیے

    بڑے شباب پہ درد فراق مستی ہے

    بڑے شباب پہ درد فراق مستی ہے نہ ہو شراب تو پہروں گھٹا برستی ہے نہ شمع روتی ہے آ کر نہ برق ہنستی ہے میں جب سے قبر میں ہوں بیکسی برستی ہے سنے تو کون سنے میکدے میں واعظ کی یہاں وہی ہیں جنہیں شغل مے پرستی ہے میں سخت جاں نہیں خنجر بھی تیز ہے لیکن نگاہ یاس ہے قاتل کی تیز دستی ہے بھرے ...

    مزید پڑھیے

    یوں اکیلا دشت غربت میں دل ناکام تھا

    یوں اکیلا دشت غربت میں دل ناکام تھا پیچھے پیچھے موت تھی آگے خدا کا نام تھا بنتے ہی گھر ابتدا میں رو کش انجام تھا تنکے چن کر جب نظر کی آشیاں اک دام تھا بے محل دل کے بجھانے سے انہیں کیا مل گیا جس کو شمع صبح سمجھے وہ چراغ شام تھا حال منعم خود غرض کیا جانیں مے خانہ میں کل رند تھے بے ...

    مزید پڑھیے

    ملتا جو کوئی ٹکڑا اس چرخ زبرجد میں

    ملتا جو کوئی ٹکڑا اس چرخ زبرجد میں پیوند لگا دیتا میں نفس مجرد میں بیداری فرقت میں تھا رمز قیامت کا جاگا ہوں کہ نیند آئے تاریکئ مرقد میں اس دفتر ہستی میں تعلیم بہت کم ہے دو حرف نظر آئے دیباچۂ ابجد میں گو خاک کا پتلا ہوں لیکن کوئی کیا سمجھے میں بھی کوئی شے ہوں جو گردوں ہے مری کد ...

    مزید پڑھیے

تمام