میں نہیں کہتا کہ دنیا کو بدل کر راہ چل

میں نہیں کہتا کہ دنیا کو بدل کر راہ چل
خار ہیں پیراہن گل میں سنبھل کر راہ چل


دور ہے ملک عدم اور تجھ میں دم باقی نہیں
ہو سکے تو بس یوں ہی کروٹ بدل کر راہ چل


طالب منزل ہے پھر عزلت نشینی کس لیے
رہروؤں کو دیکھ لے گھر سے نکل کر راہ چل


کوئے جاناں میں زمانہ ہو گیا روتے ہوئے
تا کجا دل کا تأسف ہاتھ مل کر راہ چل


یوں رسائی تا سحر ممکن نہیں اے دل مگر
شمع کی صورت شب غم میں پگھل کر راہ چل