سمیر پرمل کی غزل

    سازشوں کی بھیڑ تھی چہرہ چھپا کر چل دئے

    سازشوں کی بھیڑ تھی چہرہ چھپا کر چل دئے نفرتوں کی آگ سے دامن بچا کر چل دئے نا مکمل داستاں دل میں سمٹ کر رہ گئی وہ زمانہ کی کئی باتیں سنا کر چل دئے ذکر میرا گفتگو میں جب کبھی بھی آ گیا مسکرائے اور پھر نظریں جھکا کر چل دئے منزل دیوانگی حاصل ہوئی یوں ہی نہیں کیا بتائیں پیار میں کیا ...

    مزید پڑھیے

    اسی قاتل کا سینے میں تیرے خنجر رہا ہوگا

    اسی قاتل کا سینے میں تیرے خنجر رہا ہوگا کہ جو چھپ کر بہت احساس کے اندر رہا ہوگا نہ جانے کس طرح خاموش دریا میں مچی ہلچل نگاہوں میں تری شاید کوئی کنکر رہا ہوگا در و دیوار سے آنسو ٹپکتے ہیں لہو بن کر اسی کمرے میں ارمانوں کا اک بستر رہا ہوگا کہیں سمٹا ہے سناٹے کی چادر اوڑھ کر ...

    مزید پڑھیے

    بڑا جب سے گھرانا ہو گیا ہے

    بڑا جب سے گھرانا ہو گیا ہے خفا سارا زمانہ ہو گیا ہے ہوئی مدت کئے ہیں ضبط موتی نگاہوں میں خزانہ ہو گیا ہے جڑیں کھودا کیے تا عمر جس کی شجر وہ شامیانہ ہو گیا ہے کریں گے خرچ اب جی بھر کے یارو بہت نیکی کمانا ہو گیا ہے

    مزید پڑھیے

    تمام شے میں وہ اکثر دکھائی دیتا ہے

    تمام شے میں وہ اکثر دکھائی دیتا ہے بڑا حسین یہ منظر دکھائی دیتا ہے غموں کی دھوپ میں جلتی ہوئی نگاہوں کو صنم وفا کا سمندر دکھائی دیتا ہے تمہارے ہاتھ کی ان بے زباں لکیروں میں ہمیں ہمارا مقدر دکھائی دیتا ہے بنا لیا ہے جو شیشے کا گھر یہاں میں نے ہر اک نگاہ میں پتھر دکھائی دیتا ...

    مزید پڑھیے

    بھری محفل میں رسوا کیوں کریں ہم

    بھری محفل میں رسوا کیوں کریں ہم تری آنکھوں کو دریا کیوں کریں ہم ضروری اور بھی ہیں مسئلے تو محبت ہی کا چرچا کیوں کریں ہم گلے سلجھائیں گے دونوں ہی مل کر بھلا سب کو اکٹھا کیوں کریں ہم سیاست توڑ دینا چاہتی ہے مگر بھائی سے الجھا کیوں کریں ہم ہمارے دل میں ہی راون ہے یاروں زمانہ بھر ...

    مزید پڑھیے

    محبت کی نشانی کو کچل کر

    محبت کی نشانی کو کچل کر وہ خوش ہیں اک کہانی کو کچل کر یہ دہشت کی جو آندھی چل رہی ہے رکے گی زندگانی کو کچل کر کریں گے شدھ گنگا کو لہو سے سبھی آنکھوں کے پانی کو کچل کر بھلا کیا جھوٹ قابض ہو سکے گا ہماری سچ بیانی کو کچل کر قلم کی دھار پینی ہو رہی ہے تمہاری بد گمانی کو کچل کر

    مزید پڑھیے

    میں بناتا تجھے ہم سفر زندگی

    میں بناتا تجھے ہم سفر زندگی کاش آتی کبھی میرے گھر زندگی میرے خوابوں کے بھی پاؤں جلنے لگے بن کے دریا نظر میں اتر زندگی ہر گھڑی آدمی خود میں مرتا رہا اس طرح کٹ گئی بے خبر زندگی ہم فقیروں کے قابل رہی تو کہاں جا امیروں کی کوٹھی میں مر زندگی تو گزارے یا جی بھر کے جی لے اسے آج کی رات ...

    مزید پڑھیے

    تمام شے میں وہ اکثر دکھائی دیتا ہے

    تمام شے میں وہ اکثر دکھائی دیتا ہے بڑا حسین یہ منظر دکھائی دیتا ہے غموں کی دھوپ میں جلتی ہوئی نگاہوں کو صنم وفا کا سمندر دکھائی دیتا ہے تمہارے ہاتھ کی ان بے زباں لکیروں میں ہمیں ہمارا مقدر دکھائی دیتا ہے بنا لیا ہے جو شیشے کا گھر یہاں میں نے ہر اک نگاہ میں پتھر دکھائی دیتا ...

    مزید پڑھیے