میں بناتا تجھے ہم سفر زندگی
میں بناتا تجھے ہم سفر زندگی
کاش آتی کبھی میرے گھر زندگی
میرے خوابوں کے بھی پاؤں جلنے لگے
بن کے دریا نظر میں اتر زندگی
ہر گھڑی آدمی خود میں مرتا رہا
اس طرح کٹ گئی بے خبر زندگی
ہم فقیروں کے قابل رہی تو کہاں
جا امیروں کی کوٹھی میں مر زندگی
تو گزارے یا جی بھر کے جی لے اسے
آج کی رات ہے رات بھر زندگی