ثمینہ راجہ کی غزل

    چند گلے بھلا دئے چند سے درگزر کیا

    چند گلے بھلا دئے چند سے درگزر کیا قصۂ غم طویل تھا جان کے مختصر کیا جھوٹ نہیں تھا عشق بھی زیست بھی تھی تجھے عزیز میں نے بھی اپنی عمر کو اپنے لیے بسر کیا جیسے بھی تیرے خواب ہوں جو بھی ترے سراب ہوں میں نے تو ریت اوڑھ لی میں نے تو کم سفر کیا تیری نگاہ ناز کا لطف و گریز ایک ساتھ شوق ...

    مزید پڑھیے

    دل رہے گا یوں ہی بیتاب نظر آتا ہے

    دل رہے گا یوں ہی بیتاب نظر آتا ہے جاگنے پر بھی وہی خواب نظر آتا ہے سامنے دیکھوں تو پڑتا ہے مرے دل پہ وہ عکس مڑ کے دیکھوں تو وہ مہتاب نظر آتا ہے کھائے جاتا ہے مرے باغ کے ہر پیڑ کو گھن دور ہی دور سے شاداب نظر آتا ہے غسل کے واسطے شبنم نہیں ہوگی کافی سایۂ گل جو تہہ آب نظر آتا ہے ہے ...

    مزید پڑھیے

    ہم تو یوں الجھے کہ بھولے آپ ہی اپنا خیال

    ہم تو یوں الجھے کہ بھولے آپ ہی اپنا خیال ہاں کوئی ہوتا بھی ہوگا بھولنے والا خیال ایک پتھر کی طرح سے ڈوبتا جاتا ہے دل ہو رہا ہے اور گہرا اور بھی گہرا خیال آب حیراں پر کسی کا عکس جیسے جم گیا آنکھ میں بس ایک لمحے کے لئے ٹھہرا خیال پھر تو کب اپنے رہے کب کار دنیا کے رہے جب سے ہم پر چھا ...

    مزید پڑھیے

    رہ فراق کسی طور مختصر کیجے

    رہ فراق کسی طور مختصر کیجے جو ہو سکے تو کبھی خواب سے گزر کیجے ہمارے دل میں بھی منظر عجیب سیر کا ہے نہ آ سکیں تو بلندی سے ہی نظر کیجے یہاں پہ چاروں طرف ہے سراغ رستوں کا پر اختیار کوئی راہ دیکھ کر کیجے یہ شہر و کوہ و بیابان و دشت و دریا تھے اب آگے خواب ہے رک جائیے بسر کیجے بنے تھے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2