چند گلے بھلا دئے چند سے درگزر کیا
چند گلے بھلا دئے چند سے درگزر کیا قصۂ غم طویل تھا جان کے مختصر کیا جھوٹ نہیں تھا عشق بھی زیست بھی تھی تجھے عزیز میں نے بھی اپنی عمر کو اپنے لیے بسر کیا جیسے بھی تیرے خواب ہوں جو بھی ترے سراب ہوں میں نے تو ریت اوڑھ لی میں نے تو کم سفر کیا تیری نگاہ ناز کا لطف و گریز ایک ساتھ شوق ...