ثمینہ راجہ کی نظم

    ہجر کی عمر بڑھی ہے

    ہجر کی عمر بڑھی ہے تو ہم ان آنکھوں کو اب کسی خواب نگر میں نہیں جانے دیں گے غم سے اب دوستی کر لیں گے خوشی کو نہیں آنے دیں گے ہجر کے وقت میں احوال شب و روز کا کیا پوچھتے ہو اس میں ساعت بھی زمانوں سے بڑی ہوتی ہے دن کھڑا ہوتا ہے جلاد کے مانند سبھی راتوں پر رات ڈائن کی طرح وقت کے ناکے میں ...

    مزید پڑھیے

    سمندر کی جانب سے آتی ہوا میں

    کبھی نیلگوں آسماں کے تلے سبز ساحل پہ ملنے کا وعدہ ہوا تھا سمندر کسی خواب سا خوش نما تھا سمندر کے پہلو میں شہر دل افروز کا ہمہمہ تھا یہ شہر آج اشکوں میں ڈوبا ہوا ہے یہاں سے وہاں تک ہر اک رہ گزر پر اک آسیب کا سامنا ہے نگاہوں کے آگے دھواں ہے سمندر کہاں ہے سمندر کے ساحل پہ ملنے کا وعدہ ...

    مزید پڑھیے

    اک عمر کی دیر

    صفحۂ دل سے ترا نام مٹانے میں مجھے دیر لگی پوری اک عمر کی دیر! اشک غم۔۔۔ قطرۂ خوں۔۔۔ آب مسرت سے مٹا کر دیکھا رنگ دنیا بھی ملا۔۔۔ رنگ تمنا بھی لگا کر دیکھا مکتب عشق میں جتنے بھی سبق یاد کیے یاد رہے عرصۂ زیست میں خوابوں کے خرابے تھے بہت ان خرابوں میں خیالوں کے نگر جتنے بھی آباد ...

    مزید پڑھیے

    تیسری بارش سے پہلے

    اس روز موسم خزاں کی پہلی بارش ہوئی جب اس نے میرے در سے آخری بار قدم نکالا اس نے میری رسوئی سے ایک نوالہ نہ لیا میرے کنویں سے ایک گھونٹ نہ پیا اور میرے ہونٹوں کا ایک بوسہ نہ لیا بلکہ پہلے لئے ہوئے سارے بوسے تھوک دیئے جب موسم خزاں کی دوسری بارش ہوئی تو میری رسوئی میں ایک سانپ ...

    مزید پڑھیے

    اس چہرے پر شام ذرا سی گہری ہے

    یہ آنکھیں بالکل ویسی ہیں جیسی مرے خواب میں آتی تھیں پیشانی تھوڑی ہٹ کر ہے پر ہونٹوں پر مسکان کی بنتی مٹتی لہریں ویسی ہیں آواز کا زیر و بم بھی بالکل ویسا ہے اور ہاتھ جنہیں میں خواب میں بھی چھونا چاہوں تو کانپ اٹھوں یہ ہاتھ بھی بالکل ویسے ہیں یہ چہرہ بالکل ویسا ہے پر اس پر چھائی ...

    مزید پڑھیے

    سمندر کی خوشبو

    سمندر کی خوشبو کہیں دور سے آ رہی ہے، سمندر کی بو سے ہیں بوجھل۔۔۔ نشیلی ہوائیں ہوائیں جو ساحل کی خستہ تمنا سے ٹکرا رہی ہیں ہوائیں پرانے زمانے کے کچھ راز دہرا رہی ہیں یہاں سے ذرا فاصلے پر نگر ہے جہاں لوگ بستے ہیں اپنی خموشی میں ڈوبی ہوئی زندگی کو۔۔۔ سہارا دیے لوگ روتے ہیں۔۔۔ ...

    مزید پڑھیے

    پذیرائی

    دل بڑھا اس کی پذیرائی کو ہاتھوں میں اٹھائے سبز جگنو نقرئی گل سرخ نارنجی سنہری کانپتی لو کا چراغ ایسی گل رو تھی کہ جب آتی نظر کے سامنے ساری سمتوں میں مہک اٹھتے تھے باغ ایسی مہ رخ تھی اندھیرے میں بھی جب دل کے قریب آتا کبھی اس کا خیال اس ادا سے سر پہ رکھے چاند تاروں سے بھرا پورا ...

    مزید پڑھیے

    شب خزاں

    تجھے اعتبار سحر بھی ہے تجھے انتظار بہار بھی مگر اے صدائے امید دل مری زندگی تو قلیل ہے یہ شب خزاں ہے مرے گماں سے عجیب تر کوئی آس پاس نہیں یہاں کوئی شکل ہو جو دل آفریں کوئی نام ہو جو متاع جاں کوئی چاند زینۂ ابر سے اتر آئے اور مجھے تھام لے کوئی خواب رو بڑی گہری نیند سے چونک کر مرا ...

    مزید پڑھیے

    یہ رستہ

    ان درختوں کے گہرے گھنے، خواب آلود سائے میں خاموش، حیران چلتا ہوا۔۔۔ ایک رستہ کسی دور کی۔۔۔ روشنی کی طرف جا رہا ہے یہاں سے جو دیکھو تو جیسے۔۔۔ کہیں حد امکاں تلک گم شدہ وقت جیسی اندھیری گپھا ہے یہاں سے جو دیکھو۔۔۔ تو امید جیسا بہت حیرت افزا۔۔۔ عجب سلسلہ ہے جو اس تنگ، تاریک نقطے ...

    مزید پڑھیے