دل رہے گا یوں ہی بیتاب نظر آتا ہے

دل رہے گا یوں ہی بیتاب نظر آتا ہے
جاگنے پر بھی وہی خواب نظر آتا ہے


سامنے دیکھوں تو پڑتا ہے مرے دل پہ وہ عکس
مڑ کے دیکھوں تو وہ مہتاب نظر آتا ہے


کھائے جاتا ہے مرے باغ کے ہر پیڑ کو گھن
دور ہی دور سے شاداب نظر آتا ہے


غسل کے واسطے شبنم نہیں ہوگی کافی
سایۂ گل جو تہہ آب نظر آتا ہے


ہے مری نیند کے ملبے پہ ہی تعمیر اس کی
یہ جو اک خواب پس خواب نظر آتا ہے


کیا عجب شہر تمنا تھا ابھی اور پل میں
پردۂ چشم پہ سیلاب نظر آتا ہے